ROSE
02-27-2010, 09:27 PM
مہمان کا حق
۔ 252”حضرت ابو شریحؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” جو تم میں سے اللہ پر اور پچھلے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ بھلی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔ اور جو اللہ پر اور پچھلے دن (قیامت) پر ایمان رکھتا ہے
اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے۔ مہمان کی خاطر مدارات (کی مدت) ایک دن ایک رات ہے، اور عام ضیافت (میزبانی) کی مدت تین دن ہے، اس کے بعد جو کچھ بھی ہے وہ صدقہ اور مہمان کیلئے جائز نہیں ہے وہ میزبان کے ہال اتنا ٹھیرے کہ اسے پریشانی میں مبتلا کر دے۔“ توضیح: اس حدیث میں ایمان باللہ اور ایمان بالآخرہ کے دو تقاضے بیان کیے گئے ہیں۔
زبان کی حفاظت، یعنی غیبت، بدکلامی اور فضول یاوہ گوئی سے پرہیز کرتے ہوئے اچھے مصرف میں زبان کا استعمال۔
(2) فیاضی اورسخاوت نفس، اس کی ایک شکل یہ ہے کہ اگر کوئی مسافر اس کے گھر میں ٹھہرنا چاہے تو بجائے انقباض اور تنگ دلی کے وسعت قلب کے ساتھ اس کے کھانے پینے اور قیام کا اہتمام کیا جائے۔ ساتھ ہی تلقین کی گئی ہے کہ مہمان کو بھی اتنا خود دار ہونا چاہیے کہ تین دن سے زیادہ کا بوجھ اپنے میزبان پر نہ ڈالے۔ اس طرح اگر میزبان کی طرف سے فیاضی کا برتاﺅ اور مہمان کی جانب سے خود داری کا اظہار ہو تو اجتماعی زندگی میں ایک خوشگوار فضا پیدا ہو سکتی ہے۔
غلاموں اور خادموں کے حقوق
253۔”(بروایت ابوذرؓ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” (یہ غلام لونڈی) تمہارے بھائی ہیں جن کو اللہ نے تمہارا دست مگر بنایا ہے تو (یاد رہے) جس کے ما تحت لونڈی غلام ہوں اسے چاہیے جو خود کھاتا ہے اسی میں سے ان کو کھلائے جو پہنتا ہے اسی میں سے ان کو پہنائے اور ان کو کسی ایسے کام پر مجبور نہ کرے جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو۔ اگر ایسی ضرورت پیش آجائے تو خود بھی ان کو سہارا دے۔
۔ 254”(بروایت علیؓ بن ابی طالب) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری کلمات یہ تھے۔ (1) نماز، نماز (2) جو تمہارے دست نگر ہیں ان کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہو۔“ تشریح: یعنی نماز کا خیال رکھو اور غلاموں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آﺅ اور ان پر ظلم و زیادتی نہ کرو۔ اس حدیث میں نماز کی تاکید اور غلاموں کے ساتھ حسن سلوک میں پیش آنے کو یکجا بیان کیا گیا ہے۔ بظاہر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب نماز کے ذریعہ خدا کی عظمت اور اس کا خوف انسان کے دل میں سما جاتا ہے تو اسے معاشرے کی کمزور سے کمزور مخلوق کے حقوق پر دست اندازی کی جرا ¿ت نہیں ہو سکتی۔
قیدیوں سے اچھا برتاﺅ
۔255”حضرت مصعبؓ بن عمیر کے ابو عزیزؓ بن عمیر سے روایت ہے کہ میں جنگ بدر کے قیدیوں میں شامل تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” قیدیوں کے ساتھ اچھا برتاﺅ کرو۔“ میں انصار کے کچھ لوگوں کے پاس تھا۔ وہ جب صبح اور شام کا کھانا نکالتے تھے تو خود کھجور کھاتے اور مجھے چپاتی کھلاتے۔ یہ ارشاد نبوی کا نتیجہ تھا۔ تشریح: اس حدیث میں اندازہ ہو سکتا ہے کہ اسلام نے کمزوروں کے حقوق کا کتنا خیال رکھا ہے۔ نہ صرف یہ کہ مسلمان بلکہ دشمن کافر قیدی بھی ایک مسلم معاشرے میں اچھے برتاﺅ کے مستحق ہیں۔
۔256”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” اللہ تعالیٰ ایسی امت کو پاکیزگی نہیں بخشتا جس کے ماحول میں ناتوانوں اور کمزوروں کو ان کا حق نہ دلوایا جائے۔“
پس منظر: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مدینہ میں عبداللہ“ بن مسعود کو کچھ زمین عطا کی۔ یہ زمین انصار کے مکانات اور نخلستان کے سامنے تھی۔ بنو عبد بن زہرہ (انصار کے ایک خاندان) نے کہا: ام سعید کے بیٹے! (یعنی عبداللہؓ بن مسعود) یہاں سے ہٹ جاﺅ۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا: تب مجھے اللہ نے کیوں رسول بنا کر بھیجا ہے؟“ یعنی میری بعثت کا مقصد یہ ہے کہ کمزوروں اور زیر دستوں کو تواناﺅں اورطاقت وروں کے مظالم سے نجات دلاﺅں۔ لیکن اگر میرے آنے کے بعد بھی کمزوروں پر ظلم ہو اور ان کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا جائے تو پھر میرے آنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔
غرباءکی خاطر داری
۔257”مصعب بن سعدؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ سعد نے خیال کیا کہ اسے اپنے سے کمتر لوگوں پر برتری حاصل ہے اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ تمہیں ضعیفوں اور کمزوروں کی وجہ سے ہی خدا کی طرف سے مدد اور روزی میسر ہوتی ہے۔
“ تشریح: یعنی معاشی یا جسمانی لحاظ سے کمزور افراد کو وہ لوگ حقیر نہ سمجھیں جن کو خدا نے جسمانی یا مالی توانائی بخشی ہے۔ یہ خوش حالی اور توانائی درحقیقت ایک آزمائش ہے۔ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کے خوش حال بندے نعمتوں سے مالا مال ہو کر بے آسرا کمزور انسانوں کو تو فراموش نہیں کرتے۔
اغنیاءکے اموال میں ناداروں کے حقوق
۔258 ”حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں آپ کے ہمراہ تھے۔ اچانک شخص سواری پر سوار آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اس کا حال یہ تھا کہ کبھی دائیں طرف جاتا اور کبھی بائیں طرف مڑتا۔ یعنی وہ اپنی سواری کے ناکارہ ہو جانے کی وجہ سے پریشان تھا۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا: ” جس کے پاس فالتو سواری ہو تو وہ اس کو دے دے جس کے پاس سرے سے سواری ہی نہ ہو اور جس کے پاس فالتو زادراہ ہو تو وہ اسے دے ڈالے جس کے پاس بالکل زاد راہ ہی نہ ہو۔ اس طرح آپ نے مال کی کئی قسمیں بیان فرمائیں یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ فالتو اشیاءمیں ہمارا کوئی حق ہی نہیں ہے۔
“ تشریح: یہ جنگ کا موقع تھا اس قسم کے ہنگامی حالات میں امیر وقت کو شرعاً یہ اجازت ہے کہ وہ زکوٰة کے علاوہ خوش حال لوگوں پر ٹیکس لگا سکتا ہے یا ان کی فالتو چیزیں بے سرو سامال مستحقین میں تقسیم کر سکتا ہے۔
۔ 252”حضرت ابو شریحؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” جو تم میں سے اللہ پر اور پچھلے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ بھلی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔ اور جو اللہ پر اور پچھلے دن (قیامت) پر ایمان رکھتا ہے
اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے۔ مہمان کی خاطر مدارات (کی مدت) ایک دن ایک رات ہے، اور عام ضیافت (میزبانی) کی مدت تین دن ہے، اس کے بعد جو کچھ بھی ہے وہ صدقہ اور مہمان کیلئے جائز نہیں ہے وہ میزبان کے ہال اتنا ٹھیرے کہ اسے پریشانی میں مبتلا کر دے۔“ توضیح: اس حدیث میں ایمان باللہ اور ایمان بالآخرہ کے دو تقاضے بیان کیے گئے ہیں۔
زبان کی حفاظت، یعنی غیبت، بدکلامی اور فضول یاوہ گوئی سے پرہیز کرتے ہوئے اچھے مصرف میں زبان کا استعمال۔
(2) فیاضی اورسخاوت نفس، اس کی ایک شکل یہ ہے کہ اگر کوئی مسافر اس کے گھر میں ٹھہرنا چاہے تو بجائے انقباض اور تنگ دلی کے وسعت قلب کے ساتھ اس کے کھانے پینے اور قیام کا اہتمام کیا جائے۔ ساتھ ہی تلقین کی گئی ہے کہ مہمان کو بھی اتنا خود دار ہونا چاہیے کہ تین دن سے زیادہ کا بوجھ اپنے میزبان پر نہ ڈالے۔ اس طرح اگر میزبان کی طرف سے فیاضی کا برتاﺅ اور مہمان کی جانب سے خود داری کا اظہار ہو تو اجتماعی زندگی میں ایک خوشگوار فضا پیدا ہو سکتی ہے۔
غلاموں اور خادموں کے حقوق
253۔”(بروایت ابوذرؓ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” (یہ غلام لونڈی) تمہارے بھائی ہیں جن کو اللہ نے تمہارا دست مگر بنایا ہے تو (یاد رہے) جس کے ما تحت لونڈی غلام ہوں اسے چاہیے جو خود کھاتا ہے اسی میں سے ان کو کھلائے جو پہنتا ہے اسی میں سے ان کو پہنائے اور ان کو کسی ایسے کام پر مجبور نہ کرے جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو۔ اگر ایسی ضرورت پیش آجائے تو خود بھی ان کو سہارا دے۔
۔ 254”(بروایت علیؓ بن ابی طالب) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری کلمات یہ تھے۔ (1) نماز، نماز (2) جو تمہارے دست نگر ہیں ان کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہو۔“ تشریح: یعنی نماز کا خیال رکھو اور غلاموں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آﺅ اور ان پر ظلم و زیادتی نہ کرو۔ اس حدیث میں نماز کی تاکید اور غلاموں کے ساتھ حسن سلوک میں پیش آنے کو یکجا بیان کیا گیا ہے۔ بظاہر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب نماز کے ذریعہ خدا کی عظمت اور اس کا خوف انسان کے دل میں سما جاتا ہے تو اسے معاشرے کی کمزور سے کمزور مخلوق کے حقوق پر دست اندازی کی جرا ¿ت نہیں ہو سکتی۔
قیدیوں سے اچھا برتاﺅ
۔255”حضرت مصعبؓ بن عمیر کے ابو عزیزؓ بن عمیر سے روایت ہے کہ میں جنگ بدر کے قیدیوں میں شامل تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” قیدیوں کے ساتھ اچھا برتاﺅ کرو۔“ میں انصار کے کچھ لوگوں کے پاس تھا۔ وہ جب صبح اور شام کا کھانا نکالتے تھے تو خود کھجور کھاتے اور مجھے چپاتی کھلاتے۔ یہ ارشاد نبوی کا نتیجہ تھا۔ تشریح: اس حدیث میں اندازہ ہو سکتا ہے کہ اسلام نے کمزوروں کے حقوق کا کتنا خیال رکھا ہے۔ نہ صرف یہ کہ مسلمان بلکہ دشمن کافر قیدی بھی ایک مسلم معاشرے میں اچھے برتاﺅ کے مستحق ہیں۔
۔256”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” اللہ تعالیٰ ایسی امت کو پاکیزگی نہیں بخشتا جس کے ماحول میں ناتوانوں اور کمزوروں کو ان کا حق نہ دلوایا جائے۔“
پس منظر: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مدینہ میں عبداللہ“ بن مسعود کو کچھ زمین عطا کی۔ یہ زمین انصار کے مکانات اور نخلستان کے سامنے تھی۔ بنو عبد بن زہرہ (انصار کے ایک خاندان) نے کہا: ام سعید کے بیٹے! (یعنی عبداللہؓ بن مسعود) یہاں سے ہٹ جاﺅ۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا: تب مجھے اللہ نے کیوں رسول بنا کر بھیجا ہے؟“ یعنی میری بعثت کا مقصد یہ ہے کہ کمزوروں اور زیر دستوں کو تواناﺅں اورطاقت وروں کے مظالم سے نجات دلاﺅں۔ لیکن اگر میرے آنے کے بعد بھی کمزوروں پر ظلم ہو اور ان کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا جائے تو پھر میرے آنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔
غرباءکی خاطر داری
۔257”مصعب بن سعدؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ سعد نے خیال کیا کہ اسے اپنے سے کمتر لوگوں پر برتری حاصل ہے اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ تمہیں ضعیفوں اور کمزوروں کی وجہ سے ہی خدا کی طرف سے مدد اور روزی میسر ہوتی ہے۔
“ تشریح: یعنی معاشی یا جسمانی لحاظ سے کمزور افراد کو وہ لوگ حقیر نہ سمجھیں جن کو خدا نے جسمانی یا مالی توانائی بخشی ہے۔ یہ خوش حالی اور توانائی درحقیقت ایک آزمائش ہے۔ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کے خوش حال بندے نعمتوں سے مالا مال ہو کر بے آسرا کمزور انسانوں کو تو فراموش نہیں کرتے۔
اغنیاءکے اموال میں ناداروں کے حقوق
۔258 ”حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں آپ کے ہمراہ تھے۔ اچانک شخص سواری پر سوار آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اس کا حال یہ تھا کہ کبھی دائیں طرف جاتا اور کبھی بائیں طرف مڑتا۔ یعنی وہ اپنی سواری کے ناکارہ ہو جانے کی وجہ سے پریشان تھا۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا: ” جس کے پاس فالتو سواری ہو تو وہ اس کو دے دے جس کے پاس سرے سے سواری ہی نہ ہو اور جس کے پاس فالتو زادراہ ہو تو وہ اسے دے ڈالے جس کے پاس بالکل زاد راہ ہی نہ ہو۔ اس طرح آپ نے مال کی کئی قسمیں بیان فرمائیں یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ فالتو اشیاءمیں ہمارا کوئی حق ہی نہیں ہے۔
“ تشریح: یہ جنگ کا موقع تھا اس قسم کے ہنگامی حالات میں امیر وقت کو شرعاً یہ اجازت ہے کہ وہ زکوٰة کے علاوہ خوش حال لوگوں پر ٹیکس لگا سکتا ہے یا ان کی فالتو چیزیں بے سرو سامال مستحقین میں تقسیم کر سکتا ہے۔