Log in

View Full Version : مہید


ROSE
02-23-2010, 11:01 AM
تمہید



دین اللہ تعالی کی ہدایت ہے جو اس نے پہلے انسان کی فطرت میں الہام فرمائی اور اس کے بعد اس کی تمام تفصیلات کے ساتھ اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسان کو دی ہے۔ اس سلسلہ کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ چنانچہ دین کا تنہا ماخذ اس زمین پر اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے۔ یہ صرف انھی کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کو ان کے پروردگار کی ہدایت میسر ہو سکتی اور یہ صرف انھی کا مقام ہے کہ اپنے قول و فعل اور تقریر و تصویب سے وہ جس چیز کو دین قرار دیں، وہی اب رہتی دنیا تک دین حق قرار پائے:



هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ۔

(الجمعہ 62: 2)

"وہی ذات ہے جس نے ان امیوں میں ایک رسول انھی میں سے اٹھایا ہے جو اس کی آیتیں ان پر تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور (اس کے لیے) انھیں قانون اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔"



یہی قانون و حکمت وہ دین حق ہے جسے "اسلام" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کے ماخذ کی تفصیل ہم اس طرح کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے منتقل ہوا اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے:



1۔ قرآن مجید



2۔ سنت



قرآن مجید کے بارے میں ہر مسلمان اس حقیقت سے واقف ہے کہ یہ وہ کتاب ہے جو اللہ تعالی نے اپنے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی ہے، اور اپنے نزول کے بعد سے آج تک مسلمانوں کے پاس ان کی طرف سے بالاجماع اس صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ یہی وہ کتاب ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی اور جسے آپ کے صحابہ نے اپنے اجماع اور قولی تواتر کے ذریعے سے پوری حفاظت کے ساتھ بغیر کسی ادنی تغیر کے دنیا کو منتقل کیا ہے۔



سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ قرآن میں اس کا حکم آپ کے لیے اس طرح بیان ہوا ہے:



ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ۔ (النحل16: 123)

"پھر ہم نے تمھیں وحی کی کہ ملت ابراہیم کی پیروی کرو جو بالکل یک سو تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا۔"



اس ذریعے سے جو دین ہمیں ملا ہے، وہ یہ ہے:



عبادات

1۔ نماز۔ 2۔ زکوۃ اور صدقۂ فطر۔ 3۔ روزہ و اعتکاف۔ 4۔ حج و عمرہ۔ 5۔ قربانی اور ایام تشریق کی تکبیریں۔



معاشرت

1۔ نکاح و طلاق اور ان کے متعلقات۔ 2۔حیض و نفاس میں زن و شو کے تعلق سے اجتناب۔



خورونوش

1۔ سؤر، خون، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کی حرمت۔ 2۔ اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تذکیہ۔



رسوم و آداب

1۔ اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا۔ 2۔ ملاقات کے موقع پر 'السلام علیکم' اور اس کا جواب۔ 3۔ چھینک آنے پر 'الحمدللہ' اور اس کے جواب میں 'یرحمک اللہ'۔ 4۔ نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت۔ 5۔ مو نچھیں پست رکھنا۔ 6۔ زیر ناف کے بال کاٹنا۔ 7۔ بغل کے بال صاف کرنا۔ 8۔ بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا۔ 9۔ لڑکوں کا ختنہ کرنا۔ 10۔ ناک، منہ اور دانتوں کی صفائی۔11۔ استنجا۔ 12۔ حیض و نفاس کے بعد غسل۔ 13۔غسل جنابت۔ 14۔ میت کا غسل۔ 15۔ تجہیز و تکفین۔ 16۔تدفین۔ 17۔عید الفطر۔ 18۔ عید الاضحی۔



سنت یہی ہے اور اس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے، یہ اسی طرح ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے، لہذا اس کے بارے میں اب کسی بحث و نزاع کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔



دین لاریب، انھی دو صورتوں میں ہے۔ ان کے علاوہ کوئی چیز دین ہے، نہ اسے دین قرار دیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے اخبار آحاد جنھیں بالعموم "حدیث" کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ کبھی درجۂ یقین کو نہیں پہنچتا، اس لیے دین میں ان سے کسی عقیدہ و عمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا۔ دین سے متعلق جو چیزیں ان میں آتی ہیں، وہ درحقیقت، قرآن و سنت میں محصور اسی دین کی تفہیم و تبیین اور اس پر عمل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا بیان ہیں۔ حدیث کا دائرہ یہی ہے۔ چنانچہ دین کی حیثیت سے اس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہو سکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔



اس دائرے کے اندر، البتہ اس کی حجت ہر اس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل یا تقریر و تصویب کی حیثیت سے اسے قبول کر لیتا ہے۔ اس سے انحراف پھر اس کے لیے جائز نہیں رہتا، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اس میں بیان کیا گیا ہے تو اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔

life2
02-23-2010, 09:59 PM
jazakallah

!«╬Ĵamil Malik╬«!
04-28-2010, 07:15 PM
jazakallah

ღƬαsнι☣Rασ™
07-04-2012, 03:43 PM
Jazak allah
Jazak Allah
Thanks fOr Shar!ng

Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.