ROSE
02-04-2010, 10:54 AM
نام
پیغمبر اسلام (ص) نے آپ کا نام اللہ کے نام پر علی رکھا ۔ حضرت ابو طالب و فاطمہ بنت اسد نے پیغمبر اسلام (ص) سے عرض کیا کہ ہم نے ہاتف غیبی سے یہی نام سنا تھا۔
القاب
آپ کے مشہور القاب امیر المومنین ، مرتضی، اسد اللہ، ید اللہ، نفس اللہ، حیدر، کرار، نفس رسول اور ساقی کوثر ہیں۔
کنیت
حضرت علی علیہ السّلام کی مشہور کنیت ابو الحسن و ابو تراب ہین۔
والدین
حضرت علی (ع) ھاشمی خاندان کے وه پھلے فرزند ھیں جن کے والد اور و الده دونوں ھاشمی ھیں ۔ آپ کے والد ابو طالب بن عبد المطلب بن ھاشم ھیں اور ماں فاطمه بنت اسد بن ھاشم ھیں ۔
ھاشمی خاندان قبیل ہ قریش میں اور قریش تمام عربوں میں اخلاقی فضائل کے لحاظ سے مشھور و معروف تھے ۔
جواں مردی ، دلیری ، شجاعت اور بھت سے فضائل بنی ھاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل حضرت علی (ع) کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھے ۔
ولادت
جت حضرت علی (ع) کی ولادت کا وقت قریب آیا تو فاطمه بنت اسد کعبه کے پاس ائیں اور آپنے جسم کو اس کی دیوار سے مس کر کے عرض کیا:
پروردگارا ! میں تجھ پر، تیرےنبیوں پر، تیری طرف سے نازل شده کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے، آپنے جد ابراھیم (ع) کے کلام پر راسخ ایمان رکھتی ھوں ۔
پروردگارا ! تجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ جس نے اس مکان مقدس کی تعمیر کی اور اس بچه کے حق کا واسطه جو میرے شکم میں موجود ھے، اس کی ولادت کو میرے لئے آسان فرما ۔
ابھی ایک لمحہ بھی نھیں گزرا تھا که کعبہ کی جنوبی مشرقی دیوار ، عباس بن عبد المطلب اور یزید بن تعف کی نظروں کے سامنے شگافته ھوئی، فاطمه بنت اسد کعبہ میں داخل ھوئیں اور دیوار دوباره مل گئی ۔ فاطمه بنت اسد تین دن تک روئے زمین کے اس سب سے مقدس مکان میں اللہ کی مھمان رھیں اور تیره رجب سن ۳۰/ عام الفیل کو بچہ کی ولادت ھوئی ۔ ولادت کے بعد جب فاطمه بنت اسد نے کعبہ سے باھر آنا چاھا تو دیوار دو باره شگافتہ ھوئی، آپ کعبه سے باھر تشریف لائیں اور فرمایا :” میں نے غیب سے یہ پیغام سنا ھے که اس بچے کا ” نام علی “ رکھنا “ ۔
بچپن ا ور تربیت
حضرت علی (ع) تین سال کی عمر تک آپنے والدین کے پاس رہے اور اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کے پاس آگئے۔ کیون کہ جب آپ تین سال کے تھےاس وقت مکہ میں بھت سخت قحط پڑا ۔جس کی وجہ سے رسول الله (ص) کے چچا ابو طالب کو اقتصادی مشکل کابہت سخت سامنا کرنا پڑا ۔ رسول الله (ص) نے آپنے دوسرے چچا عباس سے مشوره کرنے کے بعد یہ طے کیا کہ ھم میں سے ھر ایک، ابو طالب کے ایک ایک بچے کی کفالت آپنے ذمہ لے لے تاکہ ان کی مشکل آسان ھو جائے ۔ اس طرح عباس نے جعفر اور رسول الله (ص) نے علی (ع) کی کفالت آپنے ذمہ لے لی ۔
حضرت علی (ع) پوری طرح سے پیغمبر اکرم (ص) کی کفالت میں آگئے اور حضرت علی علیہ السّلام کی پرورش براهِ راست حضرت محمد مصطفےٰ کے زیر نظر ہونے لگی ۔ ا ٓ پ نے انتہائی محبت اور توجہ سے آپنا پورا وقت، اس چھوٹے بھائی کی علمی اورا خلاقی تربیت میں صرف کیا. کچھ تو حضرت علی (ع) کے ذاتی جوہر اور پھراس پر رسول جیسے بلند مرتبہ مربیّ کافیض تربیت ، چنانچہ علی علیہ السّلام دس برس کے سن میں ہی اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ جب پیغمبر اسلام (ص) نے رسالت کا دعوی ک یا، تو آپ نے ان کی تصدیق فرمائ ۔ آپ ھمیشه رسول الله (ص) کے ساتھ رھتے تھے، یہاں تک کہ جب پیغمبر اکرم (ص) شھر سے باھر، کوه و بیابان کی طرف جاتے تھے تو آپ کو آپنے ساتھ لے جاتے تھے ۔
پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت اور حضرت علی (ع)
جب حضرت محمد مصطفے ( ص ) چالیس سال کے ہوئے تو اللہ نے انہیں عملی طور پر آپنا پیغام پہنچانے کے لئے معین فرمایا ۔ اللہ کی طرف سے پیغمبر (ص) کو جو یہ ذمہ داری سونپی گئ ، اسی کو بعثت کہتے ہیں .
حضرت محمد (ص) پر وحی الٰھی کے نزول و پیغمبری کے لئے انتخاب کے بعدکی تین سال کی مخفیانہ دعوت کے بعد بالاخرخدا کی طرف سے وحی نازل ھوئ اور رسول الله (ص) کو عمومی طور پر دعوت اسلام کا حکم دیا گیا ۔
اس دوران پیغمبراکرم (ص) کی الٰھی دعوت کے منصوبوں کو عملی جامہ پھنانے والے تنھا حضرت علی (ع) تھے۔ جب رسول الله (ص) نے اپنے اعزاء و اقرباء کے درمیان اسلام کی تبلیغ کے لئے انہیں دعوت دی تو آپ کے ھمدرد و ھمدم، تنھا حضرت علی (ع) تھے ۔
اس دعوت میں پیغمبر خدا (ص) نےحاضرین سے سوال کیا کہ آپ میں سے کون ہے جو اس راه میں میری مدد کرے اور آپ کے درمیان میرا بھائی، وصی اور جانشین ھو؟
اس سوال کا جواب فقط حضرت علی (ع) نے دیا :” اے پیغمبر خدا ! میں اس راه میں آپ کی نصرت کروں گا ۔ پیغمبر اکرم (ص) نے تین مرتبه اسی سوال کی تکرار اور تینوں مرتبہ حضرت علی (ع) کا جواب سننے کے بعد فرمایا :
اے میرے خاندان والوں ! جان لو که علی میرا بھائی اور میرے بعد تمھارے درمیان میرا وصی و جانشین ھے ۔
علی (ع) کے فضائل میں سے ایک یہ بھی ھے کہ آپ (ع) رسول الله (ص) پر ایمان لانے والے سب سے پھلے شخص ھیں ۔ اس سلسلے میں ابن ابی الحدید لکھتے ھیں :
”بزرگ علماء اور گروه معتزلہ کے متکلمین کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نھیں ھے کہ علی بن ابی طالب (ع) وه پھلے شخص ھیں جو پیغمبر اسلام پر ایمان لائے اور پیغمبر خدا (ص) کیتصدیق کی “۔
رسول اسلام کی بعثت، زمانہ , ماحول, شہر اور آپنی قوم و خاندان کے خلاف ایک ایسی مہم تھی ، جس میں رسول کا ساتھ دینے والا کوئی نظر نہ ی اتا تھا ۔ بس ایک علی علیہ السّلام تھے کہ جب پیغمبر نے رسالت کا دعویٰ کیا تو انہوں نے سب سے پہلے ا ن کی تصدیق کی اور ان پر ایمان کااقرارکیا . دوسری ذات جناب خدیج ۃ ال کبریٰ کی تھی، جنھوں نے خواتین کے طبقہ میں سبقتِ اسلام ک ا شرف حاصل کیا۔
پیغمبر کادعوائے رسالت کرنا تھا کہ مکہ کا ہر آدمی رسول کادشمن نظر انے لگا . وہی لوگ جو کل تک آپ کی سچائی اورامانتداری کادم بھرتے تھے اج آپ کو ( معاذ الله ( یوانہ، جادو گر اور نہ جانے کیا کیا کہنے لگے۔ اللہ کے رسول کے راستوں میں کانٹے بچھائے جاتے، انہیں پتھر مارے جاتے اور ان کے سر پر کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا. اس مصیبت کے وقت میں رسول ک ے شریک صرفاور صرف حضرت علی علیہ السّلام تھے، جو بھائی کاساتھ دینے میں کبھی بھی ہمت نہیں ہار تے تھے ۔ وہ ہمیشہ محبت ووفاداری کادم بھرتے رہےاور ہرموقع پر رسول کے سینہ سپر رہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت بھی ایا جب مخالف گروہ نے انتہائی سختی کے ساتھ یہ طے کرلیا کہ پیغمبر اور ان کے تمام گھر والوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ حالات اتنے خراب تھے کہ جانوں کے لالے پڑ گئے تھے .حضرت ابو طالب علیہ السّلام نے آپنے تمام ساتھیوں کو حضرت محمدمصطفےٰ سمیت ایک پہاڑ کے دامن میں محفوظ قلعہ میں بند کردیا۔ وہان پر تین برس تک قید وبند کی زندگی بسر کرنی پڑی . کیون کہ اس دوران ہر رات یہ خطرہ رہتا تھا کہ کہیں دشمن شب خون نہ مار دے . اس لئے ابو طالب علیہ السّلام نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ وہ رات بھر رسول کو ایک بستر پر نہیں رہنے دیتے تھے، بلکہ ک بھی رسول کے بستر پر جعفر کو اور جعفر کے بستر پر رسول کو ک بھی عقیل کے بستر پر رسول کو اور رسول کے بستر پر عقیل کو ک بھی علی کے بستر پر رسول کو اور رسول کے بستر پر علی علیہ السّلام کو لٹا تے رہتے تھے. مطلب یہ تھا کہ اگر دشمن رسول کے بستر کا پتہ لگا کر حملہ کرنا چاہے تو میرا کوئ بیٹا قتل ہوجائے مگر رسول کا بال بیکانہ ہونے پائے . اس طرح علی علیہ السّلام بچپن سے ہی فدا کاری اور جان نثاری کے سبق کو عملی طور پر دہراتے رہے .
رسول کی ہجرت اور حضرت علی (ع)
حضرت علی (ع) کے دیگر افتخارات میں سے ایک یہ ھے کہ جب شب ھجرت مشرک دشمنوں نے رسول الله (ص) کے قتل کی سازش رچی تو آپ (ع) نے پوری شجاعت کے ساتھ رسول الله (ص) کے بستر پر سو کر انکی سازش کو نا کام کر دیا۔
حضرت ابو طالب علیہ السّلام کی وفات سے پیغمبر کا دل ٹوٹ گیا اور آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کاارادہ کرلیا ۔ دشمنوں نے یہ سازش رچی کہ ایک رات جمع ہو کر پیغمبر کے گھر کو گھیر لیں اور حضرت کو شہید کرڈالیں۔ جب حضرت کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے آپنے جاں نثار بھائی علی علیہ السّلام کو بلا کر اس سازش کے بارے میں اطلاع دی اور فرمایا کہ میری جان اس طرح بچ سکتی ہے اگر آج رات آپ میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر سو جاؤ اور میں مخفی طور پر مکہ سے روانہ ہوجاؤں . کوئی دوسرا ہوتاتو یہ پیغام سنتے ہی اس کا دل دہل جاتا، مگر علی علیہ السّلام نے یہ سن کر کہ میرے ذریعہ سے رسول کی جان کی حفاظت ہوگی، خدا کاشکر ادا کیا اور بہت خوش ہوئے کہ مجھے رسول کافدیہ قرار دیا جارہا ہے۔ یہی ہوا کہ رسالت ماب شب کے وقت مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے اور علی بن ابی طالب علیہ ما السّلام رسول کے بستر پر سوئے۔ چاروں طرف خون کے پیاسے دشمن تلواریں کھینچے نیزے لئے ہوئے مکان کوگھیرے ہوئے تھے . بس اس بات کی دیر تھی کہ ذرا صبح ہو اور سب کے سب گھر میں داخل ہو کر رسالت ما ٓ ب کو شہید کر ڈالیں . علی علیہ السّلام اطمینان کے ساتھ بستر پرارام کرتے رہے اور اپنی جان کا ذرا بھی خیال نہ کیا۔ جب دشمنوں کو صبح کے وقت یہ معلوم ہوا کہ محمد نہیں ہیں تو انھوں نے آپ پر یہ دباؤ ڈالا کہ آپ بتلادیں کہ رسول کہا ںگئے ہیں ? مگر علی علیہ السّلام نے بڑے بہادرانہ انداز میں یہ بتانے سے قطعیطور پر انکار کردیا . اس کا نتیجہ یہ ہواکہ رسول الله (ص) مکہ سے کافی دور تک بغیر کسی پریشانی اور رکاوٹ کے تشریف لے جاسکیں.علی علیہ السّلام تین روز تک مکہ میں رہے . جن لوگوں کی امانتیں رسول الله کے پاس تھیں ان کے سپرد کر کےخواتین ُبیت ُ رسالت کو آپنے ساتھ لے کرمدینہ کی طرف روانہ ہوئے . آپ کئ روز تک رات دن پیدل چلے کر اس حالت میں رسول کے پاس پہنچے کہ آپ کے پیروں سے خون بہ رہا تھا. اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ علی علیہ السّلام پر رسول کو سب سے زیادہ اعتماد تھااور جس وفاداری , ہمت اور دلیری سے علی علیہ السّلام نے اس ذمہ داری کو پورا کیا ہے وہ بھی آپنی آپ میں ایک مثال ہے۔
شادی
جب رسول اکرم (ص) ہجرت کر کے مدینے گئے تو فاطمہ زہرا السّلام اللہ عل یہا بالغ ہو چکی تھیں اور پیغمبر(ص) اپنی اکلوتی بیٹی فاطمہ زہرا السّلام اللہ علیہا ک ی شادی کی فکر میں تھے.کیوں کہ رسول(ص) اپنی بیٹی س ے بہت محبت کر تے تھے اور انہیں اتنی عزت دیتے تھے کہ جب فاطمہ زہرا السّلام اللہ علیہا ان کے پاس تشریف لاتی تھیں تو رسولاللہ (ص)ان کی تعظیم کے ل ئے کھڑے ہوجاتے تھے .اس لئے ہر شخص رسول کی اس معزز بیٹی کے ساتھ منسوب ہونے کا شرف حاصل کرنے کی تمنا میں تھا. کچھ لو گوں نے ہمت کر کے سول کو پیغام بھی دیا مگر حضرت نے سب کی خواہشوں کو رد کردیا اور فرمایا کہ فاطمہ کی شادی اللہ کے حکمِ بغیر نہیں ہوسکتی ۔
عمر و ابوبکر قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ سے مشوره کرنے کے بعد اس نتیجے پر پھونچ چکے تھے کہ علی (ع) کے سوا کوئی بھی زھرا (س) کے ساتھ ازدواج کی لیاقت نھیں رکھتا۔ ایک دن جب حضرت علی (ع) انصار رسول (ص) میں سے کسی کے باغ میں آبیاری کر رھے تھےتو انھوں نے اس موضوع کو آپ (ع) کے سامنے چھیڑا اور آپ نے فرمایا :
” میں بھی دختر رسول (ص) سے شادی کا خواھاں ھوں ، یہ کہہ کر آپ رسول الله (ص) کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
جب رسول الله (ص) کی خدمت میں پھونچے تو رسول الله (ص) کی عظمت اس بات میں مانع ھوئی که آپ (ع) کچه عرض کریں ۔جب رسول الله (ص) نے آنے کی وجہ دریافت کی تو حضرت علی (ع) نے اپنے فضائل، تقویٰ اور اسلام کے لئے آپنے سابقہ کارناموں کی بنیاد پرعرض کیا : ” آیا آپ فاطمه کو میرے عقد میں دینا بہتر سمجھتے ہیں ؟“
حضرت زھرا (س) کی رضامندی کے بعد رسول الله (ص) نے یہ رشتہ قبول کر لیا۔
ہجرت کا پہلا سال تھا کہ رسول نے علی علیہ السّلام کو اس عزت کے لئے منتخب کیا . یہ شادی نہایت سادگی کے ساتھ انجام دی گئ . حضرت فاطمہ (س) کا مہر حضرت علی علیہ السّلام سے لے کر اسی سے ُ کچھ گھر کا سامان خریدا گیا جسے جہیز طور پر دیا گیا۔ وہ سامان بھی کیاتھا ؟ کچھ مٹی کے برتن ، خرمے کی چھال کے تکیے، چمڑے کابستر، چرخہ، چکی اور پانی بھرنے کی مشک . حضرت زہرا (س) کا مہر ایک سو سترہ تولے چاندی قرار پایا، جسےحضرت علی علیہ السّلام نے آپنی زرہ فروخت کر کے ادا کیا ۔
کتابت وحی
وحی الٰھی کی کتابت اور بھت سے تاریخی و سیاسی اسناد کی تنظیم اور دعوت الٰھی کے تبلیغی خطوط لکھنا، حضرت علی (ع) کے بھت اھم کاموں میں سے ایک ھے ۔ آپ (ع) قرآنی آیات کو لکھتے اور منظم و کرتے تھے اسی لئے آپ کو کاتبان وحی اور حافظان قرآن میں شمار کیا جاتا ھے ۔
حضرت علیہ ااسلام ، پیغمبراسلام (ص) کے بھائ
پیغمبراسلام (ص) نےمدینے پہنچ کر مسلمانوں کے درمیان بھائ کا رشتہ قائم کیا۔ عمر کو ابو بکر کا بھائ بنا بنا یاطلہ کو زبیر کا بھائ قرار دیا و۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور حضرت علی (ع)کو رسول الله (ص) نے اپنا بھائ بنایا اور حضرت علی (ع) سے فرمایا :
” تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ھو، اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ۔۔۔ میں تمھیں آپنی اخوت کے لئے انتخاب کرتا ھوں ، ایک ایسی اخوت جو دونوں جھان میں بر قرار رھے “۔
.
پیغمبر اسلام (ص) نے آپ کا نام اللہ کے نام پر علی رکھا ۔ حضرت ابو طالب و فاطمہ بنت اسد نے پیغمبر اسلام (ص) سے عرض کیا کہ ہم نے ہاتف غیبی سے یہی نام سنا تھا۔
القاب
آپ کے مشہور القاب امیر المومنین ، مرتضی، اسد اللہ، ید اللہ، نفس اللہ، حیدر، کرار، نفس رسول اور ساقی کوثر ہیں۔
کنیت
حضرت علی علیہ السّلام کی مشہور کنیت ابو الحسن و ابو تراب ہین۔
والدین
حضرت علی (ع) ھاشمی خاندان کے وه پھلے فرزند ھیں جن کے والد اور و الده دونوں ھاشمی ھیں ۔ آپ کے والد ابو طالب بن عبد المطلب بن ھاشم ھیں اور ماں فاطمه بنت اسد بن ھاشم ھیں ۔
ھاشمی خاندان قبیل ہ قریش میں اور قریش تمام عربوں میں اخلاقی فضائل کے لحاظ سے مشھور و معروف تھے ۔
جواں مردی ، دلیری ، شجاعت اور بھت سے فضائل بنی ھاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل حضرت علی (ع) کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھے ۔
ولادت
جت حضرت علی (ع) کی ولادت کا وقت قریب آیا تو فاطمه بنت اسد کعبه کے پاس ائیں اور آپنے جسم کو اس کی دیوار سے مس کر کے عرض کیا:
پروردگارا ! میں تجھ پر، تیرےنبیوں پر، تیری طرف سے نازل شده کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے، آپنے جد ابراھیم (ع) کے کلام پر راسخ ایمان رکھتی ھوں ۔
پروردگارا ! تجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ جس نے اس مکان مقدس کی تعمیر کی اور اس بچه کے حق کا واسطه جو میرے شکم میں موجود ھے، اس کی ولادت کو میرے لئے آسان فرما ۔
ابھی ایک لمحہ بھی نھیں گزرا تھا که کعبہ کی جنوبی مشرقی دیوار ، عباس بن عبد المطلب اور یزید بن تعف کی نظروں کے سامنے شگافته ھوئی، فاطمه بنت اسد کعبہ میں داخل ھوئیں اور دیوار دوباره مل گئی ۔ فاطمه بنت اسد تین دن تک روئے زمین کے اس سب سے مقدس مکان میں اللہ کی مھمان رھیں اور تیره رجب سن ۳۰/ عام الفیل کو بچہ کی ولادت ھوئی ۔ ولادت کے بعد جب فاطمه بنت اسد نے کعبہ سے باھر آنا چاھا تو دیوار دو باره شگافتہ ھوئی، آپ کعبه سے باھر تشریف لائیں اور فرمایا :” میں نے غیب سے یہ پیغام سنا ھے که اس بچے کا ” نام علی “ رکھنا “ ۔
بچپن ا ور تربیت
حضرت علی (ع) تین سال کی عمر تک آپنے والدین کے پاس رہے اور اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کے پاس آگئے۔ کیون کہ جب آپ تین سال کے تھےاس وقت مکہ میں بھت سخت قحط پڑا ۔جس کی وجہ سے رسول الله (ص) کے چچا ابو طالب کو اقتصادی مشکل کابہت سخت سامنا کرنا پڑا ۔ رسول الله (ص) نے آپنے دوسرے چچا عباس سے مشوره کرنے کے بعد یہ طے کیا کہ ھم میں سے ھر ایک، ابو طالب کے ایک ایک بچے کی کفالت آپنے ذمہ لے لے تاکہ ان کی مشکل آسان ھو جائے ۔ اس طرح عباس نے جعفر اور رسول الله (ص) نے علی (ع) کی کفالت آپنے ذمہ لے لی ۔
حضرت علی (ع) پوری طرح سے پیغمبر اکرم (ص) کی کفالت میں آگئے اور حضرت علی علیہ السّلام کی پرورش براهِ راست حضرت محمد مصطفےٰ کے زیر نظر ہونے لگی ۔ ا ٓ پ نے انتہائی محبت اور توجہ سے آپنا پورا وقت، اس چھوٹے بھائی کی علمی اورا خلاقی تربیت میں صرف کیا. کچھ تو حضرت علی (ع) کے ذاتی جوہر اور پھراس پر رسول جیسے بلند مرتبہ مربیّ کافیض تربیت ، چنانچہ علی علیہ السّلام دس برس کے سن میں ہی اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ جب پیغمبر اسلام (ص) نے رسالت کا دعوی ک یا، تو آپ نے ان کی تصدیق فرمائ ۔ آپ ھمیشه رسول الله (ص) کے ساتھ رھتے تھے، یہاں تک کہ جب پیغمبر اکرم (ص) شھر سے باھر، کوه و بیابان کی طرف جاتے تھے تو آپ کو آپنے ساتھ لے جاتے تھے ۔
پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت اور حضرت علی (ع)
جب حضرت محمد مصطفے ( ص ) چالیس سال کے ہوئے تو اللہ نے انہیں عملی طور پر آپنا پیغام پہنچانے کے لئے معین فرمایا ۔ اللہ کی طرف سے پیغمبر (ص) کو جو یہ ذمہ داری سونپی گئ ، اسی کو بعثت کہتے ہیں .
حضرت محمد (ص) پر وحی الٰھی کے نزول و پیغمبری کے لئے انتخاب کے بعدکی تین سال کی مخفیانہ دعوت کے بعد بالاخرخدا کی طرف سے وحی نازل ھوئ اور رسول الله (ص) کو عمومی طور پر دعوت اسلام کا حکم دیا گیا ۔
اس دوران پیغمبراکرم (ص) کی الٰھی دعوت کے منصوبوں کو عملی جامہ پھنانے والے تنھا حضرت علی (ع) تھے۔ جب رسول الله (ص) نے اپنے اعزاء و اقرباء کے درمیان اسلام کی تبلیغ کے لئے انہیں دعوت دی تو آپ کے ھمدرد و ھمدم، تنھا حضرت علی (ع) تھے ۔
اس دعوت میں پیغمبر خدا (ص) نےحاضرین سے سوال کیا کہ آپ میں سے کون ہے جو اس راه میں میری مدد کرے اور آپ کے درمیان میرا بھائی، وصی اور جانشین ھو؟
اس سوال کا جواب فقط حضرت علی (ع) نے دیا :” اے پیغمبر خدا ! میں اس راه میں آپ کی نصرت کروں گا ۔ پیغمبر اکرم (ص) نے تین مرتبه اسی سوال کی تکرار اور تینوں مرتبہ حضرت علی (ع) کا جواب سننے کے بعد فرمایا :
اے میرے خاندان والوں ! جان لو که علی میرا بھائی اور میرے بعد تمھارے درمیان میرا وصی و جانشین ھے ۔
علی (ع) کے فضائل میں سے ایک یہ بھی ھے کہ آپ (ع) رسول الله (ص) پر ایمان لانے والے سب سے پھلے شخص ھیں ۔ اس سلسلے میں ابن ابی الحدید لکھتے ھیں :
”بزرگ علماء اور گروه معتزلہ کے متکلمین کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نھیں ھے کہ علی بن ابی طالب (ع) وه پھلے شخص ھیں جو پیغمبر اسلام پر ایمان لائے اور پیغمبر خدا (ص) کیتصدیق کی “۔
رسول اسلام کی بعثت، زمانہ , ماحول, شہر اور آپنی قوم و خاندان کے خلاف ایک ایسی مہم تھی ، جس میں رسول کا ساتھ دینے والا کوئی نظر نہ ی اتا تھا ۔ بس ایک علی علیہ السّلام تھے کہ جب پیغمبر نے رسالت کا دعویٰ کیا تو انہوں نے سب سے پہلے ا ن کی تصدیق کی اور ان پر ایمان کااقرارکیا . دوسری ذات جناب خدیج ۃ ال کبریٰ کی تھی، جنھوں نے خواتین کے طبقہ میں سبقتِ اسلام ک ا شرف حاصل کیا۔
پیغمبر کادعوائے رسالت کرنا تھا کہ مکہ کا ہر آدمی رسول کادشمن نظر انے لگا . وہی لوگ جو کل تک آپ کی سچائی اورامانتداری کادم بھرتے تھے اج آپ کو ( معاذ الله ( یوانہ، جادو گر اور نہ جانے کیا کیا کہنے لگے۔ اللہ کے رسول کے راستوں میں کانٹے بچھائے جاتے، انہیں پتھر مارے جاتے اور ان کے سر پر کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا. اس مصیبت کے وقت میں رسول ک ے شریک صرفاور صرف حضرت علی علیہ السّلام تھے، جو بھائی کاساتھ دینے میں کبھی بھی ہمت نہیں ہار تے تھے ۔ وہ ہمیشہ محبت ووفاداری کادم بھرتے رہےاور ہرموقع پر رسول کے سینہ سپر رہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت بھی ایا جب مخالف گروہ نے انتہائی سختی کے ساتھ یہ طے کرلیا کہ پیغمبر اور ان کے تمام گھر والوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ حالات اتنے خراب تھے کہ جانوں کے لالے پڑ گئے تھے .حضرت ابو طالب علیہ السّلام نے آپنے تمام ساتھیوں کو حضرت محمدمصطفےٰ سمیت ایک پہاڑ کے دامن میں محفوظ قلعہ میں بند کردیا۔ وہان پر تین برس تک قید وبند کی زندگی بسر کرنی پڑی . کیون کہ اس دوران ہر رات یہ خطرہ رہتا تھا کہ کہیں دشمن شب خون نہ مار دے . اس لئے ابو طالب علیہ السّلام نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ وہ رات بھر رسول کو ایک بستر پر نہیں رہنے دیتے تھے، بلکہ ک بھی رسول کے بستر پر جعفر کو اور جعفر کے بستر پر رسول کو ک بھی عقیل کے بستر پر رسول کو اور رسول کے بستر پر عقیل کو ک بھی علی کے بستر پر رسول کو اور رسول کے بستر پر علی علیہ السّلام کو لٹا تے رہتے تھے. مطلب یہ تھا کہ اگر دشمن رسول کے بستر کا پتہ لگا کر حملہ کرنا چاہے تو میرا کوئ بیٹا قتل ہوجائے مگر رسول کا بال بیکانہ ہونے پائے . اس طرح علی علیہ السّلام بچپن سے ہی فدا کاری اور جان نثاری کے سبق کو عملی طور پر دہراتے رہے .
رسول کی ہجرت اور حضرت علی (ع)
حضرت علی (ع) کے دیگر افتخارات میں سے ایک یہ ھے کہ جب شب ھجرت مشرک دشمنوں نے رسول الله (ص) کے قتل کی سازش رچی تو آپ (ع) نے پوری شجاعت کے ساتھ رسول الله (ص) کے بستر پر سو کر انکی سازش کو نا کام کر دیا۔
حضرت ابو طالب علیہ السّلام کی وفات سے پیغمبر کا دل ٹوٹ گیا اور آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کاارادہ کرلیا ۔ دشمنوں نے یہ سازش رچی کہ ایک رات جمع ہو کر پیغمبر کے گھر کو گھیر لیں اور حضرت کو شہید کرڈالیں۔ جب حضرت کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے آپنے جاں نثار بھائی علی علیہ السّلام کو بلا کر اس سازش کے بارے میں اطلاع دی اور فرمایا کہ میری جان اس طرح بچ سکتی ہے اگر آج رات آپ میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر سو جاؤ اور میں مخفی طور پر مکہ سے روانہ ہوجاؤں . کوئی دوسرا ہوتاتو یہ پیغام سنتے ہی اس کا دل دہل جاتا، مگر علی علیہ السّلام نے یہ سن کر کہ میرے ذریعہ سے رسول کی جان کی حفاظت ہوگی، خدا کاشکر ادا کیا اور بہت خوش ہوئے کہ مجھے رسول کافدیہ قرار دیا جارہا ہے۔ یہی ہوا کہ رسالت ماب شب کے وقت مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے اور علی بن ابی طالب علیہ ما السّلام رسول کے بستر پر سوئے۔ چاروں طرف خون کے پیاسے دشمن تلواریں کھینچے نیزے لئے ہوئے مکان کوگھیرے ہوئے تھے . بس اس بات کی دیر تھی کہ ذرا صبح ہو اور سب کے سب گھر میں داخل ہو کر رسالت ما ٓ ب کو شہید کر ڈالیں . علی علیہ السّلام اطمینان کے ساتھ بستر پرارام کرتے رہے اور اپنی جان کا ذرا بھی خیال نہ کیا۔ جب دشمنوں کو صبح کے وقت یہ معلوم ہوا کہ محمد نہیں ہیں تو انھوں نے آپ پر یہ دباؤ ڈالا کہ آپ بتلادیں کہ رسول کہا ںگئے ہیں ? مگر علی علیہ السّلام نے بڑے بہادرانہ انداز میں یہ بتانے سے قطعیطور پر انکار کردیا . اس کا نتیجہ یہ ہواکہ رسول الله (ص) مکہ سے کافی دور تک بغیر کسی پریشانی اور رکاوٹ کے تشریف لے جاسکیں.علی علیہ السّلام تین روز تک مکہ میں رہے . جن لوگوں کی امانتیں رسول الله کے پاس تھیں ان کے سپرد کر کےخواتین ُبیت ُ رسالت کو آپنے ساتھ لے کرمدینہ کی طرف روانہ ہوئے . آپ کئ روز تک رات دن پیدل چلے کر اس حالت میں رسول کے پاس پہنچے کہ آپ کے پیروں سے خون بہ رہا تھا. اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ علی علیہ السّلام پر رسول کو سب سے زیادہ اعتماد تھااور جس وفاداری , ہمت اور دلیری سے علی علیہ السّلام نے اس ذمہ داری کو پورا کیا ہے وہ بھی آپنی آپ میں ایک مثال ہے۔
شادی
جب رسول اکرم (ص) ہجرت کر کے مدینے گئے تو فاطمہ زہرا السّلام اللہ عل یہا بالغ ہو چکی تھیں اور پیغمبر(ص) اپنی اکلوتی بیٹی فاطمہ زہرا السّلام اللہ علیہا ک ی شادی کی فکر میں تھے.کیوں کہ رسول(ص) اپنی بیٹی س ے بہت محبت کر تے تھے اور انہیں اتنی عزت دیتے تھے کہ جب فاطمہ زہرا السّلام اللہ علیہا ان کے پاس تشریف لاتی تھیں تو رسولاللہ (ص)ان کی تعظیم کے ل ئے کھڑے ہوجاتے تھے .اس لئے ہر شخص رسول کی اس معزز بیٹی کے ساتھ منسوب ہونے کا شرف حاصل کرنے کی تمنا میں تھا. کچھ لو گوں نے ہمت کر کے سول کو پیغام بھی دیا مگر حضرت نے سب کی خواہشوں کو رد کردیا اور فرمایا کہ فاطمہ کی شادی اللہ کے حکمِ بغیر نہیں ہوسکتی ۔
عمر و ابوبکر قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ سے مشوره کرنے کے بعد اس نتیجے پر پھونچ چکے تھے کہ علی (ع) کے سوا کوئی بھی زھرا (س) کے ساتھ ازدواج کی لیاقت نھیں رکھتا۔ ایک دن جب حضرت علی (ع) انصار رسول (ص) میں سے کسی کے باغ میں آبیاری کر رھے تھےتو انھوں نے اس موضوع کو آپ (ع) کے سامنے چھیڑا اور آپ نے فرمایا :
” میں بھی دختر رسول (ص) سے شادی کا خواھاں ھوں ، یہ کہہ کر آپ رسول الله (ص) کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
جب رسول الله (ص) کی خدمت میں پھونچے تو رسول الله (ص) کی عظمت اس بات میں مانع ھوئی که آپ (ع) کچه عرض کریں ۔جب رسول الله (ص) نے آنے کی وجہ دریافت کی تو حضرت علی (ع) نے اپنے فضائل، تقویٰ اور اسلام کے لئے آپنے سابقہ کارناموں کی بنیاد پرعرض کیا : ” آیا آپ فاطمه کو میرے عقد میں دینا بہتر سمجھتے ہیں ؟“
حضرت زھرا (س) کی رضامندی کے بعد رسول الله (ص) نے یہ رشتہ قبول کر لیا۔
ہجرت کا پہلا سال تھا کہ رسول نے علی علیہ السّلام کو اس عزت کے لئے منتخب کیا . یہ شادی نہایت سادگی کے ساتھ انجام دی گئ . حضرت فاطمہ (س) کا مہر حضرت علی علیہ السّلام سے لے کر اسی سے ُ کچھ گھر کا سامان خریدا گیا جسے جہیز طور پر دیا گیا۔ وہ سامان بھی کیاتھا ؟ کچھ مٹی کے برتن ، خرمے کی چھال کے تکیے، چمڑے کابستر، چرخہ، چکی اور پانی بھرنے کی مشک . حضرت زہرا (س) کا مہر ایک سو سترہ تولے چاندی قرار پایا، جسےحضرت علی علیہ السّلام نے آپنی زرہ فروخت کر کے ادا کیا ۔
کتابت وحی
وحی الٰھی کی کتابت اور بھت سے تاریخی و سیاسی اسناد کی تنظیم اور دعوت الٰھی کے تبلیغی خطوط لکھنا، حضرت علی (ع) کے بھت اھم کاموں میں سے ایک ھے ۔ آپ (ع) قرآنی آیات کو لکھتے اور منظم و کرتے تھے اسی لئے آپ کو کاتبان وحی اور حافظان قرآن میں شمار کیا جاتا ھے ۔
حضرت علیہ ااسلام ، پیغمبراسلام (ص) کے بھائ
پیغمبراسلام (ص) نےمدینے پہنچ کر مسلمانوں کے درمیان بھائ کا رشتہ قائم کیا۔ عمر کو ابو بکر کا بھائ بنا بنا یاطلہ کو زبیر کا بھائ قرار دیا و۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور حضرت علی (ع)کو رسول الله (ص) نے اپنا بھائ بنایا اور حضرت علی (ع) سے فرمایا :
” تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ھو، اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ۔۔۔ میں تمھیں آپنی اخوت کے لئے انتخاب کرتا ھوں ، ایک ایسی اخوت جو دونوں جھان میں بر قرار رھے “۔
.