FAJAAN
09-17-2009, 03:58 AM
پہلا پاکستانی قتل
اٹلی میں پاکستانی کمونٹی بہت کم عرصہ سے ہے اور ابھی اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے کےلئے کوششاں ہے، مجموعی طور پر پاکستانیوں کو ایک اچھی اور شریف قوم جانا جاتا ہے کہ محنتی ہیں اور فضول لڑائی جھگڑوں اور دیگر جرائم میں ملوث نہیں ہوتے۔ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور تھوڑے ہی عرصہ میں کاروباری دنیا میں تیزی سے داخل ہورہے ہیں۔ ہمارے شہر کے چھوٹے درجہ کے کاروبار کا آج شاید دس فیصد حصہ غیرملکیوں کے پاس ہے جن میں 40 فیصدی پاکستانیوں کے پاس ہے؛ گزشتہ ماہ یہاں پر پہلا پاکستانی قتل ہوا جو ایک 22 سالہ لڑکی تھی۔ جسکو اسکے باپ نے قتل کیا اور اس میں اسکے بھائی، بہنوئی اور ایک چچازاد نے مدد کی، یہ چار افراد فی الحال گرفتار ہیں، لڑکی کی نعش کو گھر کے صحن میں دفن کیا گیا جسے بعد میں لڑکی کے اطالوی معشوق کی نشاندہی پر برآمد کیا گیا۔
لڑکی 8 برس پہلے فیملی کے ساتھ اٹلی میں آئی تھی اور یہاں پر ہی بنیادی تعلیم حاصل کی، پھر بقول کچھ لوگوں کے ”حنا آوارہ گردی میں ملوث تھی، شراب و چرس کی دل دادہ اور اس کی مجلس اطالوی اور دیگر غیر ممالک کے لڑکوں کے ساتھ تھی۔”۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ انڈین کے ایک پب میں کام کرتی تھی اسکا لباس مختصر یورپی طرز کا ہوتا تھا۔ گھر میں کم ہی جاتی تھی اور ایک اطالوی لڑکے کے ساتھ بغیر شادی کے رہتی تھی۔ گھر والے کوشش کرتے رہے ہیں کہ اسے پاکستان لے جاکر بیاہ دیا جائے مگر ہو ان کی باتوں میں نہیں آئی اور مبینہ طور پر ان وجوہات کی بنیاد پر اسے قتل کردیا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے ہی پولیس کے پاس ماں باپ کے خلاف کئی مرتبہ جاچکی ہے کہ اسے مارا پیٹا اور زدوکوب کیا جاتا ہے۔
بقول وہ کہا کرتی تھی کہ ” میں روشنی میں زندگی گزارنا چاہتی ہوں جبکہ میرے گھر والے مجھے پھر پاکستانی معاشرے کے اندھیرے میں دھکیلنا چاہتے ہیں، زندگی بار بار نہیں ملتی لہذا اسکا پورا حظ اٹھانا لازم ہے”۔
ایک نظر موجودہ حالات پر بھی ڈالی جائے تو مناسب ہوگا، ان ہی دنوں میں اطالوی حکومت نے اسمبلی میں ایک بل پیش کیا تھا کہ پانچ سال سے زیادہ عرصہ سے مستقلاُ رہائشی غیر ملکیوں کو شہریت دی جائے، جسکی مدت فی الحال دس برس اور کاغذات و شرائط کی ایک طویل فہرست ہے، جبکہ اپوزیشن اور دائیں ہاتھ کی راشسٹ پارٹیاں اس قانوں کی جان توڑ مخالفت کر رہے ہیں۔
اب یہ قتل اپوزیشن کے ہاتھ ایک ہتھیار کے طور پر لگ چکا ہے کہ غیر ملکی جرائم پیشہ ہیں، جو اپنی اولاد کو قتل کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ پھر ان دنوں مسلمانوں کے خلاف جو ہوا ساری دنیا میں چلی ہوئی ہے اسکی تیزی کا بھی یہ قتل باعث بنا کہ مسلمان اپنی اولاد کو قتل کردیتے ہیں اور دوسروں کو قتل کرنا انکےلئے ایک معمولی سی بات ہے۔ یہ بہت سنگدل ، غیر مہذب اور خون خوار ہیں وغیرہ وغیرہ۔
پھر جلتی پر تیل کا کام ہمارے یہاں کے جاہل عوام نے یہ بیان کر دیا ہے کہ ” یہ بہت اچھا ہوا ہے، اسکے باپ کو ایسا ہی کرنا چاہئے تھا، یہ عین اسلام کے مطابق ہے، ہمارے ایک مشہور عوامی لیڈر کے مطابق یہ پاکستانی ثقافت کا ایک حصہ ہے، اور عین قانون کے مطابق ہے وغیرہ وغیرہ۔
یہاں قارئین سے چند سوالات ہیں:
کہ کیا جو ہوا ٹھیک ہوا؟ کیا وہ باپ بدنصیب نہیں تھا جو اپنی اولاد کا قتل کرنے پر آمادہ ہوا؟ کیا یہ اسلام و پاکستانی معاشرتی قدروں کے مطابق درست فعل تھا؟ کیا ہم بطور پاکستانی، مشرقی و مسلمان اس مغربی مادر پدر آزاد معاشرہ میں جذب ہوسکیں گے؟ کیا ہمیں آپنی اولاد کو وہ سب کچھ کرنے کی اجازت دینی چاہئے ؟
اٹلی میں پاکستانی کمونٹی بہت کم عرصہ سے ہے اور ابھی اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے کےلئے کوششاں ہے، مجموعی طور پر پاکستانیوں کو ایک اچھی اور شریف قوم جانا جاتا ہے کہ محنتی ہیں اور فضول لڑائی جھگڑوں اور دیگر جرائم میں ملوث نہیں ہوتے۔ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور تھوڑے ہی عرصہ میں کاروباری دنیا میں تیزی سے داخل ہورہے ہیں۔ ہمارے شہر کے چھوٹے درجہ کے کاروبار کا آج شاید دس فیصد حصہ غیرملکیوں کے پاس ہے جن میں 40 فیصدی پاکستانیوں کے پاس ہے؛ گزشتہ ماہ یہاں پر پہلا پاکستانی قتل ہوا جو ایک 22 سالہ لڑکی تھی۔ جسکو اسکے باپ نے قتل کیا اور اس میں اسکے بھائی، بہنوئی اور ایک چچازاد نے مدد کی، یہ چار افراد فی الحال گرفتار ہیں، لڑکی کی نعش کو گھر کے صحن میں دفن کیا گیا جسے بعد میں لڑکی کے اطالوی معشوق کی نشاندہی پر برآمد کیا گیا۔
لڑکی 8 برس پہلے فیملی کے ساتھ اٹلی میں آئی تھی اور یہاں پر ہی بنیادی تعلیم حاصل کی، پھر بقول کچھ لوگوں کے ”حنا آوارہ گردی میں ملوث تھی، شراب و چرس کی دل دادہ اور اس کی مجلس اطالوی اور دیگر غیر ممالک کے لڑکوں کے ساتھ تھی۔”۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ انڈین کے ایک پب میں کام کرتی تھی اسکا لباس مختصر یورپی طرز کا ہوتا تھا۔ گھر میں کم ہی جاتی تھی اور ایک اطالوی لڑکے کے ساتھ بغیر شادی کے رہتی تھی۔ گھر والے کوشش کرتے رہے ہیں کہ اسے پاکستان لے جاکر بیاہ دیا جائے مگر ہو ان کی باتوں میں نہیں آئی اور مبینہ طور پر ان وجوہات کی بنیاد پر اسے قتل کردیا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے ہی پولیس کے پاس ماں باپ کے خلاف کئی مرتبہ جاچکی ہے کہ اسے مارا پیٹا اور زدوکوب کیا جاتا ہے۔
بقول وہ کہا کرتی تھی کہ ” میں روشنی میں زندگی گزارنا چاہتی ہوں جبکہ میرے گھر والے مجھے پھر پاکستانی معاشرے کے اندھیرے میں دھکیلنا چاہتے ہیں، زندگی بار بار نہیں ملتی لہذا اسکا پورا حظ اٹھانا لازم ہے”۔
ایک نظر موجودہ حالات پر بھی ڈالی جائے تو مناسب ہوگا، ان ہی دنوں میں اطالوی حکومت نے اسمبلی میں ایک بل پیش کیا تھا کہ پانچ سال سے زیادہ عرصہ سے مستقلاُ رہائشی غیر ملکیوں کو شہریت دی جائے، جسکی مدت فی الحال دس برس اور کاغذات و شرائط کی ایک طویل فہرست ہے، جبکہ اپوزیشن اور دائیں ہاتھ کی راشسٹ پارٹیاں اس قانوں کی جان توڑ مخالفت کر رہے ہیں۔
اب یہ قتل اپوزیشن کے ہاتھ ایک ہتھیار کے طور پر لگ چکا ہے کہ غیر ملکی جرائم پیشہ ہیں، جو اپنی اولاد کو قتل کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ پھر ان دنوں مسلمانوں کے خلاف جو ہوا ساری دنیا میں چلی ہوئی ہے اسکی تیزی کا بھی یہ قتل باعث بنا کہ مسلمان اپنی اولاد کو قتل کردیتے ہیں اور دوسروں کو قتل کرنا انکےلئے ایک معمولی سی بات ہے۔ یہ بہت سنگدل ، غیر مہذب اور خون خوار ہیں وغیرہ وغیرہ۔
پھر جلتی پر تیل کا کام ہمارے یہاں کے جاہل عوام نے یہ بیان کر دیا ہے کہ ” یہ بہت اچھا ہوا ہے، اسکے باپ کو ایسا ہی کرنا چاہئے تھا، یہ عین اسلام کے مطابق ہے، ہمارے ایک مشہور عوامی لیڈر کے مطابق یہ پاکستانی ثقافت کا ایک حصہ ہے، اور عین قانون کے مطابق ہے وغیرہ وغیرہ۔
یہاں قارئین سے چند سوالات ہیں:
کہ کیا جو ہوا ٹھیک ہوا؟ کیا وہ باپ بدنصیب نہیں تھا جو اپنی اولاد کا قتل کرنے پر آمادہ ہوا؟ کیا یہ اسلام و پاکستانی معاشرتی قدروں کے مطابق درست فعل تھا؟ کیا ہم بطور پاکستانی، مشرقی و مسلمان اس مغربی مادر پدر آزاد معاشرہ میں جذب ہوسکیں گے؟ کیا ہمیں آپنی اولاد کو وہ سب کچھ کرنے کی اجازت دینی چاہئے ؟