~ Bikhre Lamhe ~
06-05-2009, 06:46 AM
خواب
رات پھر خواب میں آکر مجھ سے
میری امّی نے کچھ سوال کئے
اس سےپہلے مجھے یہ دعائیں دی
خدا کرے تو سو سال جیئے
ان کی آنکھوں میں محبت بھی تھی
افسوس بھی تھا
ایک آنسو بھی تھا ان کی آنکھوں میں
جو چلّاتا بھی تھا خاموش بھی تھا
مجھ سے پوچھا کہ بیٹے کیسے ہو
کوئی دقّت تو نہیں ہے تم کو
پھر کہا ! ! !
تم کو معلوم ہے کیا؟
میں بڑی تکلیف میں ہوں
جب سے لیٹی ہوں سو نہیں پائی
تمہاری وجہ سے میں کھل کے رو نہیں پائی
تیرے گناہ مجھ کو سانپ بن کے ڈستے ہیں
فرشتے آکر ہر روز فقرے کستے ہیں
تمہی بتاؤ بیٹا میں نے کیا کمی کی تھی
یا میری تربیت ادھوری تھی
کیوں برے کام روز کرتے ہو؟
کیوں نہیں اُس خدا سے ڈرتے ہو
جس نے تم کو یہ جان بخشی ہے
جس نے تم کو امان بخشی ہے
لوٹ کر جس کے پاس جانا ہے
کیا اسے منہ نہیں دیکھانا ہے
کیا تمہیں اس لئے پڑھایا تھا
کیا تمہیں یہی سب سکھایا تھا
کہ اپنے علم پر غرور کرو
اپنے نفس کو مسرور کرو
جب بھی بولو تو بس غلط ہی بولو
ظلم دیکھو تو لب نہیں کھولو
چھوڑکر دین بھول کر حق
اپنی اوقات نوٹ میں تولو
سچ بتاؤ کہ کیا یہ قصّہ ہے
کیا یہ انداز میری تربیت کا حصّہ ہے
مجھ کو افسوس نہیں کہ تو مجھے بھول گیا
رنج یہ ہے کہ میرا جینا ہی فضول گیا
میں تو جی کے بھی روز مرتی ہوں
میں تجھے روز یاد کرتی ہوں
جس طرح جینے کا آغاز کیا ہے تو نے
اس کے انجام سے میں ڈرتی ہوں
خدا کرے اب بھی تجھے سمجھ آ جائے
کوئی آ کہ تجھے سیدھی راہ دکھا جائے
کہ اختام ہو تیرے گناہ کی شاموں کا
مجھے بھی اجر ملے تیرے نیک کاموں کا
رات پھر خواب میں آکر مجھ سے
میری امّی نے کچھ سوال کئے
اس سےپہلے مجھے یہ دعائیں دی
خدا کرے تو سو سال جیئے
ان کی آنکھوں میں محبت بھی تھی
افسوس بھی تھا
ایک آنسو بھی تھا ان کی آنکھوں میں
جو چلّاتا بھی تھا خاموش بھی تھا
مجھ سے پوچھا کہ بیٹے کیسے ہو
کوئی دقّت تو نہیں ہے تم کو
پھر کہا ! ! !
تم کو معلوم ہے کیا؟
میں بڑی تکلیف میں ہوں
جب سے لیٹی ہوں سو نہیں پائی
تمہاری وجہ سے میں کھل کے رو نہیں پائی
تیرے گناہ مجھ کو سانپ بن کے ڈستے ہیں
فرشتے آکر ہر روز فقرے کستے ہیں
تمہی بتاؤ بیٹا میں نے کیا کمی کی تھی
یا میری تربیت ادھوری تھی
کیوں برے کام روز کرتے ہو؟
کیوں نہیں اُس خدا سے ڈرتے ہو
جس نے تم کو یہ جان بخشی ہے
جس نے تم کو امان بخشی ہے
لوٹ کر جس کے پاس جانا ہے
کیا اسے منہ نہیں دیکھانا ہے
کیا تمہیں اس لئے پڑھایا تھا
کیا تمہیں یہی سب سکھایا تھا
کہ اپنے علم پر غرور کرو
اپنے نفس کو مسرور کرو
جب بھی بولو تو بس غلط ہی بولو
ظلم دیکھو تو لب نہیں کھولو
چھوڑکر دین بھول کر حق
اپنی اوقات نوٹ میں تولو
سچ بتاؤ کہ کیا یہ قصّہ ہے
کیا یہ انداز میری تربیت کا حصّہ ہے
مجھ کو افسوس نہیں کہ تو مجھے بھول گیا
رنج یہ ہے کہ میرا جینا ہی فضول گیا
میں تو جی کے بھی روز مرتی ہوں
میں تجھے روز یاد کرتی ہوں
جس طرح جینے کا آغاز کیا ہے تو نے
اس کے انجام سے میں ڈرتی ہوں
خدا کرے اب بھی تجھے سمجھ آ جائے
کوئی آ کہ تجھے سیدھی راہ دکھا جائے
کہ اختام ہو تیرے گناہ کی شاموں کا
مجھے بھی اجر ملے تیرے نیک کاموں کا