PRINCE SHAAN
01-12-2021, 04:48 PM
https://www.imagehousing.com/images/Eo4or.md.jpg
میری شادی ایک ان پڑھ سے ہوئی تھی
جبکہ میں پڑھی لکھی ہوں
میرا نام شہزادی ہے سچ بتاوں تو میرا خواب تھا ایک پڑھا لکھا اچھا کمانے والا لڑکا
لیکن کچھ مجبوریوں میں عمر سے شادی کر دی گئی
مجھے عمر اچھا نہیں لگتا تھا
ان کا کام بھی اتنا اچھا نہ تھا
خیر میں اللہ کے سامنے رو کر دعا مانگتی تھی یا اللہ
یا تو عمر کو مار دے یا پھر اس سے جان چھڑوا دو میری کسی طرح
وہ جاہل سا بولنے کا بھی نہیں پتا
میں ہر بات پہ عمر کو بے عزت کر دیتی
تنقید کرتی عمر پہ غصہ کرتی
عمر مجھے پیار سے سمجھاتا
کبھی چپ ہو جاتا
کبھی غصہ ہو کر گھر سے باہر چلا جاتا
میں ایک بار جھگڑ کر امی ابو کے پاس چلی گئی اور ضد کی کے بس طلاق لینی ہے عمر سے
امی ابو نے بہت سمجھایا کے بیٹی لڑکا اچھا ہے نہ کرو ایسا
بس بیچارہ پڑھا لکھا نہیں ہے
باقی کیا کبھی اس نے تم پہ ہاتھ اٹھا یا یا گالی دی ہو
لیکن میں بس طلاق لینا چاہتی تھی
میں نے جھوٹ بولا کے وہ خرچہ نہیں دیتا مجھے
امی ابو نے عمر کو بلوا لیا
وہ میرے سامنے بیٹھا تھا
امی ابو کہنے لگے عمر کیوں بھای تم شہزادی کو خرچہ کیوں نہیں دیتے
عمر بابا سے مخاطب ہو کر بولا
انکل جی جو کما کر لاتا ہوں سب اخراجات نکال کر جو بچتا یے شہزادی ہاتھ پہ رکھ دیتا ہوں
میرے چاچا تایا سب موجود تھے وہاں
میں بولی مجھے 30 ہزار روپے ہر مہینے چاہئے بس
اس شرط پہ ہی جاوں گی میں عمر کے ساتھ
عمر خاموش ہو گیا
سر جھکائے بیٹھا تھا
چاچا بولے ہاں عمر دے سکتے ہو خرچہ 30 ہزار
کچھ لمحے خاموش رہا پھر میری طرف دیکھنے لگا
لمبی سانس کی بولا ٹھیک ہے میں شہزادی کو 30 ہزار روپے دوں گا الگ سے ہر مہینے
میں نے دل کی گالی دی کمینے دیکھنا جینا حرام کر دوں گی تمہارا
میں عمر کے ساتھ چلی گئی
ہم بجلی پانی گیس کا بل راشن کھانا سب اخراجات بھی تھے
عمر سے جب بھی پوچھا کیا کام کرتے ہو تو کہتا گورنمنٹ آفس میں کام کرتا ہوں
اس کے علاوہ نہ میں کبھی پوچھا نہ انھوں نے بتایا
خیر عمر مجھے ہر مہینے 30 ہزار روپے دیتا
ایک دن میں نے کہا مجھے آئی فون لیکر دو
میں بس تنگ کرنا چاہتی تھی کے عمر مجھے طلاق دے دے
عمر مسکرانے لگا
میرے پاوں پکڑے اور بولا شہزادی لے دوں گا پریشان نہ ہو
تم بس مجھے چھوڑ کر جانے کی بات نہ کیا کرو
جو کہو گی کروں گا
میں کبھی کھانے میں مرچ ڈال دیتی تو کبھی زیا دہ نمک
وہ تھکا ہارا کام سے آتا کھانا کھا کر بے ہوشی کی طرح سو جاتا
نہ جانے کون سا کام کرتا تھا کے اتبا تھک جاتا ہے
میں جتنی نفرت کرتی تھی اس جاہل سے وہ اتنی محبت کرتا تھا
میں ایک دن اپنی دوست کے ساتھ کار میں شاپنگ کرنے جا رہے تھے شہر کے سب مہنگے اور بڑے مال میں
جب ہم ایک بس اڈے کے پاس سے گزرے تو
میری زندگی نے جو لمحہ دیکھا
میں بے جان ہو گئی
وہ عمر جسے میں بہت نفرت کرتی تھی
جس کو میں جاہل ان پڑھ کہتی تھی
جس کو کبھی میں نے پیار سے کھانا تک نہ دیا تھا
جس کا کبھی حال نہ پوچھا تھا
جسے میں انسان ہی نہیں سمجھتی تھی
جسے میں قبول ہی نہیں کرنا چاہتی تھی
وہ عمر سر پہ بوجھ اٹھائے کسی کا سامان بس پہ چڑھا رہا تھا
ٹانگیں کانپ رہی تھی
پرانے سے کپڑے پہنے
پسینے سے شرابور
پاوں میں ٹوٹی ہوئی جوتی پہنی تھی
فارس میں مر کیوں نہ گئی تھی
وہ میرے لیئے کیا کچھ کر رہا تھا
اتنے میں ایک شخص بولا اوئے چل یہ سامان اٹھا اور دوسری بس کئ چھت پہ لوڈ کر
عمر کو شاید بھوک لگی تھی
ہاتھ میں روٹی پکڑی رول کیا ہوا
ساتھ روٹی کھا رہا تھا ساتھ سامان اٹھا رہا تھا
میں قربان جاوں
میرا عمر میرے لیئے کس درد سے گزر رہا تھا
میں آنسو لیئے دیکھتی رہی
کام ختم ہوا
وہاں سائیڈ پہ ایک دکان کے سامنے زمین پہ بیٹھ گیا
کتنی بے بسی تھکن تھی عمر میں
سارا دن وہاں درد سہنا رات کو میری باتیں
فارس سر وہ حادثہ تھا یا اللہ کی مرضی بس میرا دل بدل گیا
میں بن بتائے کچھ خریدے گھر واپس لوٹ گئی
بہت روئی تھی بہت زیادہ
عمر کو پلاو پسند تھا میں نے پلاو بنایا
عمر گھر آیا
میں اسے کھانا نہیں دیتی تھی خود گرم کر کے کھاتا تھا
گھر آیا
مجھ سے سلام کیا کچن میں گیا
پلاو دیکھ کر بولا شہزادی آج تو آپ نے کمال کر دیا
ایک سال بعد پلاو کھانے لگا ہوں
فارس سر کھانا پلیٹ میں ڈال کر میرے پاس بیٹھ گئے کھانا کھانے لگے میں عمر کی طرف دیکھے جا رہی تھی
عمر کتنا درد سہتا ہے اور بتاتا بھی نہیں
میں کتنی اذیت دیتی ہوں کوئی شکوہ نہیں
عمر پہ آج مجھے بہت پیار آ رہا تھا
دل چاہ رہا تھا سینے سے لپٹ جاوں
عمر نے کھانا کھایا
پھر جیب سے پیسے نکالے کہنے لگا یہ لو شہزادی 30 ہزار
میں چیخ چیخ کر رونے لگی عمر کے پاوں چوم لیئے
عمر مجھے کچھ بھی نہیں چاہئے
مجھے یہ پیسے نہیں چاہئے
عمر حیران تھا مجھے کیا ہو گیا ہے
عمر نے میرا ہاتھ تھاما بولے
اگر یہ پیسے کم ہیں تو اور لا دوں گا مجھے چھوڑ کر نہ جانا
کہنے لگے شہزادی بہت بھولی ہو تم
پاگل تم بچھڑنے کے بعد کہاں بھٹکو گی خدا جانے
بہت پیار کرتا ہوں نا تم سے اسلیئے تم کو خود سے دور نہیں کر سکتا
میں عمر کے سینے سے لگ گئی آج مجھے
نہ کوئی آئی فون چاہئے تھا نہ کوئی بڑا گھر گاڑی
مجھے اب دنیا کی کوئی خبر نہ تھی میری دنیا عمر بن چکا تھا
ہم عورتیں کیسے منہ پھاڑ کر کہہ دیتی ہیں جب کھلا نہیں سکتے تھے تو شادی کیوں کی
بات بات پہ جھگڑا اور طعنے شروع کر دیتی ہیں
کبھی اہنے شوہر کا وہ چہرہ دیکھنا جس میں نے عمر کا دیکھا تھا
خدا کی قسم ہم ایک سانس نہ لے سکیں اس ماحول میں یہاں مرد اپنی فیملی کے لیئے خود کو قربان کر دیتا ہے
جتنے شوہر کماتا ہے اس پہ خوش رہو
پیسہ بھی سب کچھ نہیں ہوتا
خدا کی قسم مجھے بڑی گاڑیوں اور اے سی والے محل میں وہ سکون نہیں ملا جس سکون عمر کی بانہوں میں آتا ہے
جو سکون عمر کا سر دبانے میں آتا ہے ۔جو سکون
عمر کی پسند کے کھانے بنانے میں آتا ہے
ہمسفر کی بے بسی کو سمجھو تو سہی
دیکھ تو سہی
آپ کبھی جھگڑا نہیں کریں گی
عمر اب میری زندگی ہے
اور میں عمر کی شہزادی
میری شادی ایک ان پڑھ سے ہوئی تھی
جبکہ میں پڑھی لکھی ہوں
میرا نام شہزادی ہے سچ بتاوں تو میرا خواب تھا ایک پڑھا لکھا اچھا کمانے والا لڑکا
لیکن کچھ مجبوریوں میں عمر سے شادی کر دی گئی
مجھے عمر اچھا نہیں لگتا تھا
ان کا کام بھی اتنا اچھا نہ تھا
خیر میں اللہ کے سامنے رو کر دعا مانگتی تھی یا اللہ
یا تو عمر کو مار دے یا پھر اس سے جان چھڑوا دو میری کسی طرح
وہ جاہل سا بولنے کا بھی نہیں پتا
میں ہر بات پہ عمر کو بے عزت کر دیتی
تنقید کرتی عمر پہ غصہ کرتی
عمر مجھے پیار سے سمجھاتا
کبھی چپ ہو جاتا
کبھی غصہ ہو کر گھر سے باہر چلا جاتا
میں ایک بار جھگڑ کر امی ابو کے پاس چلی گئی اور ضد کی کے بس طلاق لینی ہے عمر سے
امی ابو نے بہت سمجھایا کے بیٹی لڑکا اچھا ہے نہ کرو ایسا
بس بیچارہ پڑھا لکھا نہیں ہے
باقی کیا کبھی اس نے تم پہ ہاتھ اٹھا یا یا گالی دی ہو
لیکن میں بس طلاق لینا چاہتی تھی
میں نے جھوٹ بولا کے وہ خرچہ نہیں دیتا مجھے
امی ابو نے عمر کو بلوا لیا
وہ میرے سامنے بیٹھا تھا
امی ابو کہنے لگے عمر کیوں بھای تم شہزادی کو خرچہ کیوں نہیں دیتے
عمر بابا سے مخاطب ہو کر بولا
انکل جی جو کما کر لاتا ہوں سب اخراجات نکال کر جو بچتا یے شہزادی ہاتھ پہ رکھ دیتا ہوں
میرے چاچا تایا سب موجود تھے وہاں
میں بولی مجھے 30 ہزار روپے ہر مہینے چاہئے بس
اس شرط پہ ہی جاوں گی میں عمر کے ساتھ
عمر خاموش ہو گیا
سر جھکائے بیٹھا تھا
چاچا بولے ہاں عمر دے سکتے ہو خرچہ 30 ہزار
کچھ لمحے خاموش رہا پھر میری طرف دیکھنے لگا
لمبی سانس کی بولا ٹھیک ہے میں شہزادی کو 30 ہزار روپے دوں گا الگ سے ہر مہینے
میں نے دل کی گالی دی کمینے دیکھنا جینا حرام کر دوں گی تمہارا
میں عمر کے ساتھ چلی گئی
ہم بجلی پانی گیس کا بل راشن کھانا سب اخراجات بھی تھے
عمر سے جب بھی پوچھا کیا کام کرتے ہو تو کہتا گورنمنٹ آفس میں کام کرتا ہوں
اس کے علاوہ نہ میں کبھی پوچھا نہ انھوں نے بتایا
خیر عمر مجھے ہر مہینے 30 ہزار روپے دیتا
ایک دن میں نے کہا مجھے آئی فون لیکر دو
میں بس تنگ کرنا چاہتی تھی کے عمر مجھے طلاق دے دے
عمر مسکرانے لگا
میرے پاوں پکڑے اور بولا شہزادی لے دوں گا پریشان نہ ہو
تم بس مجھے چھوڑ کر جانے کی بات نہ کیا کرو
جو کہو گی کروں گا
میں کبھی کھانے میں مرچ ڈال دیتی تو کبھی زیا دہ نمک
وہ تھکا ہارا کام سے آتا کھانا کھا کر بے ہوشی کی طرح سو جاتا
نہ جانے کون سا کام کرتا تھا کے اتبا تھک جاتا ہے
میں جتنی نفرت کرتی تھی اس جاہل سے وہ اتنی محبت کرتا تھا
میں ایک دن اپنی دوست کے ساتھ کار میں شاپنگ کرنے جا رہے تھے شہر کے سب مہنگے اور بڑے مال میں
جب ہم ایک بس اڈے کے پاس سے گزرے تو
میری زندگی نے جو لمحہ دیکھا
میں بے جان ہو گئی
وہ عمر جسے میں بہت نفرت کرتی تھی
جس کو میں جاہل ان پڑھ کہتی تھی
جس کو کبھی میں نے پیار سے کھانا تک نہ دیا تھا
جس کا کبھی حال نہ پوچھا تھا
جسے میں انسان ہی نہیں سمجھتی تھی
جسے میں قبول ہی نہیں کرنا چاہتی تھی
وہ عمر سر پہ بوجھ اٹھائے کسی کا سامان بس پہ چڑھا رہا تھا
ٹانگیں کانپ رہی تھی
پرانے سے کپڑے پہنے
پسینے سے شرابور
پاوں میں ٹوٹی ہوئی جوتی پہنی تھی
فارس میں مر کیوں نہ گئی تھی
وہ میرے لیئے کیا کچھ کر رہا تھا
اتنے میں ایک شخص بولا اوئے چل یہ سامان اٹھا اور دوسری بس کئ چھت پہ لوڈ کر
عمر کو شاید بھوک لگی تھی
ہاتھ میں روٹی پکڑی رول کیا ہوا
ساتھ روٹی کھا رہا تھا ساتھ سامان اٹھا رہا تھا
میں قربان جاوں
میرا عمر میرے لیئے کس درد سے گزر رہا تھا
میں آنسو لیئے دیکھتی رہی
کام ختم ہوا
وہاں سائیڈ پہ ایک دکان کے سامنے زمین پہ بیٹھ گیا
کتنی بے بسی تھکن تھی عمر میں
سارا دن وہاں درد سہنا رات کو میری باتیں
فارس سر وہ حادثہ تھا یا اللہ کی مرضی بس میرا دل بدل گیا
میں بن بتائے کچھ خریدے گھر واپس لوٹ گئی
بہت روئی تھی بہت زیادہ
عمر کو پلاو پسند تھا میں نے پلاو بنایا
عمر گھر آیا
میں اسے کھانا نہیں دیتی تھی خود گرم کر کے کھاتا تھا
گھر آیا
مجھ سے سلام کیا کچن میں گیا
پلاو دیکھ کر بولا شہزادی آج تو آپ نے کمال کر دیا
ایک سال بعد پلاو کھانے لگا ہوں
فارس سر کھانا پلیٹ میں ڈال کر میرے پاس بیٹھ گئے کھانا کھانے لگے میں عمر کی طرف دیکھے جا رہی تھی
عمر کتنا درد سہتا ہے اور بتاتا بھی نہیں
میں کتنی اذیت دیتی ہوں کوئی شکوہ نہیں
عمر پہ آج مجھے بہت پیار آ رہا تھا
دل چاہ رہا تھا سینے سے لپٹ جاوں
عمر نے کھانا کھایا
پھر جیب سے پیسے نکالے کہنے لگا یہ لو شہزادی 30 ہزار
میں چیخ چیخ کر رونے لگی عمر کے پاوں چوم لیئے
عمر مجھے کچھ بھی نہیں چاہئے
مجھے یہ پیسے نہیں چاہئے
عمر حیران تھا مجھے کیا ہو گیا ہے
عمر نے میرا ہاتھ تھاما بولے
اگر یہ پیسے کم ہیں تو اور لا دوں گا مجھے چھوڑ کر نہ جانا
کہنے لگے شہزادی بہت بھولی ہو تم
پاگل تم بچھڑنے کے بعد کہاں بھٹکو گی خدا جانے
بہت پیار کرتا ہوں نا تم سے اسلیئے تم کو خود سے دور نہیں کر سکتا
میں عمر کے سینے سے لگ گئی آج مجھے
نہ کوئی آئی فون چاہئے تھا نہ کوئی بڑا گھر گاڑی
مجھے اب دنیا کی کوئی خبر نہ تھی میری دنیا عمر بن چکا تھا
ہم عورتیں کیسے منہ پھاڑ کر کہہ دیتی ہیں جب کھلا نہیں سکتے تھے تو شادی کیوں کی
بات بات پہ جھگڑا اور طعنے شروع کر دیتی ہیں
کبھی اہنے شوہر کا وہ چہرہ دیکھنا جس میں نے عمر کا دیکھا تھا
خدا کی قسم ہم ایک سانس نہ لے سکیں اس ماحول میں یہاں مرد اپنی فیملی کے لیئے خود کو قربان کر دیتا ہے
جتنے شوہر کماتا ہے اس پہ خوش رہو
پیسہ بھی سب کچھ نہیں ہوتا
خدا کی قسم مجھے بڑی گاڑیوں اور اے سی والے محل میں وہ سکون نہیں ملا جس سکون عمر کی بانہوں میں آتا ہے
جو سکون عمر کا سر دبانے میں آتا ہے ۔جو سکون
عمر کی پسند کے کھانے بنانے میں آتا ہے
ہمسفر کی بے بسی کو سمجھو تو سہی
دیکھ تو سہی
آپ کبھی جھگڑا نہیں کریں گی
عمر اب میری زندگی ہے
اور میں عمر کی شہزادی