PRINCE SHAAN
09-05-2015, 07:58 AM
ایک مسلمان بچی کی تربیت
کل جب میں مسجد گئی تو میرے ساتھ میری ڈیڑھ سال کی بھتیجی بھی تھی۔ میں قاری صاحب کی زوجہ کے پاس بیٹھی تھی ان کی بیٹی اور میری بھتیجی دونوں کھیلنے لگیں دونوں ہم عمر ہیں دونوں بچیوں نے ایک جیسی بغیر بازو کی فراک پہن رکھی تھیں ابھی بولنا بھی نہیں شروع کیا دونوں نے مجھے ان کو دیکھ کر یوں لگا جیسے دونوں جڑواں بہنیں ہیں اتنے میں ایک بچہ پیغام لایا کہ قاری صاحب اپنی بچی کو بلا رہے ہیں میں بچی کو اسے پکڑانے لگی تو اس کی ماں بولی رکو نیچے سجد میں مرد ہیں اور یہ بچہ بھی مرد ہے ایسے نہیں بھیجنا
اس نے میرے دیکھتے دیکھتے بچی کو پوری ٹانگیں ڈھانپنے کو پاجامہ پہنایا اسکی سلیوز لیس فراک کے نیچے ایک شرٹ پہنائی جس۔کے نیچے بازو تھے اور پھر ایک دوسری بچی سے۔کہا جاؤ اس۔کو تم چھوڑ آؤ بچی کو نا محرم لڑکا نہیں اٹھا سکتا
تب سے اب تک میں ایک ہی بات سوچنے پر مجبور ہوں کیا تھا یہ سب اگر آزادانہ لبرل سوچ سوچوں تو ایک ڈیڑھ سال کی بچی کو ایسے کور کرنا شاید بہت سے لوگوں کو تنگ نظری یا تعصب لگے کہ ہمارے ہاں تو عموماً سات آٹھ سال کی عمر کی بچیاں بھی نیکر اور فراک میں باہر گھومتی ہیں چھوٹی چھوٹی بچیوں کو تو ہم لباس کا خیال ہی نہیں رکھتے بازو اور ٹانگیں ننگی ہی ہوتی ہیں لیکن پھر ایک اور سوچ آتی ہے یہ تعصب نہیں یہ تنگ نطری نہیں یہ تربیت ہے جو اسی عمر سے اس بچی کے ذہن میں ڈالی جا رہی ہے۔ ایک مسلمان بچی کی تربیت شاید یہی ہونی چاہیئے اور شاید یہی صحیح عمر ہے تربیت کی لیکن افسوس جب ہم یہ فرق بچیوں کے ذہن میں ڈانا شروع کرتے ہیں تب تک دیر ہو چکی ہوتی ہے اور پھر الزامات ہم دھر دیتے ہیں سوشل میڈیا اور مخلوط نظام تعلیم کے سر پر
لیکن بحیثیت والدین ذرا خود سوچیں ہم اپنے بچوں کو کیا تربیت دے رہیں ہیں میری نظریں شرمندگی سے اپنی ڈیڑھ سالہ بھتیجی کی نیکر پہنے ننگی ٹانگوں اور ننگے بازوؤں کی طرف تھیں جسے میں اسی طرح باہر لے آئی تھی یہ سوچے بنا کہ اس بچی کے لیئے بڑے ہونے کے بعد اس لباس میں کوئی خرابی نا رہے گی کبونکہ یہ لباس وہ بچپن سے پہن کر باہر جاتی رہی ہے۔ شاید بہت سے لوگوں کو میری یہ باتیں اور سوچ آؤٹ ڈیٹڈ اور دقیانوسی لگے لیکن بحیثیت مسلمان ہمیں ان چھوٹے چھوٹے پہلوؤں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی آئندہ آنے والی نسل کے ذہن میں کیا بھر رہے ہیں
کل جب میں مسجد گئی تو میرے ساتھ میری ڈیڑھ سال کی بھتیجی بھی تھی۔ میں قاری صاحب کی زوجہ کے پاس بیٹھی تھی ان کی بیٹی اور میری بھتیجی دونوں کھیلنے لگیں دونوں ہم عمر ہیں دونوں بچیوں نے ایک جیسی بغیر بازو کی فراک پہن رکھی تھیں ابھی بولنا بھی نہیں شروع کیا دونوں نے مجھے ان کو دیکھ کر یوں لگا جیسے دونوں جڑواں بہنیں ہیں اتنے میں ایک بچہ پیغام لایا کہ قاری صاحب اپنی بچی کو بلا رہے ہیں میں بچی کو اسے پکڑانے لگی تو اس کی ماں بولی رکو نیچے سجد میں مرد ہیں اور یہ بچہ بھی مرد ہے ایسے نہیں بھیجنا
اس نے میرے دیکھتے دیکھتے بچی کو پوری ٹانگیں ڈھانپنے کو پاجامہ پہنایا اسکی سلیوز لیس فراک کے نیچے ایک شرٹ پہنائی جس۔کے نیچے بازو تھے اور پھر ایک دوسری بچی سے۔کہا جاؤ اس۔کو تم چھوڑ آؤ بچی کو نا محرم لڑکا نہیں اٹھا سکتا
تب سے اب تک میں ایک ہی بات سوچنے پر مجبور ہوں کیا تھا یہ سب اگر آزادانہ لبرل سوچ سوچوں تو ایک ڈیڑھ سال کی بچی کو ایسے کور کرنا شاید بہت سے لوگوں کو تنگ نظری یا تعصب لگے کہ ہمارے ہاں تو عموماً سات آٹھ سال کی عمر کی بچیاں بھی نیکر اور فراک میں باہر گھومتی ہیں چھوٹی چھوٹی بچیوں کو تو ہم لباس کا خیال ہی نہیں رکھتے بازو اور ٹانگیں ننگی ہی ہوتی ہیں لیکن پھر ایک اور سوچ آتی ہے یہ تعصب نہیں یہ تنگ نطری نہیں یہ تربیت ہے جو اسی عمر سے اس بچی کے ذہن میں ڈالی جا رہی ہے۔ ایک مسلمان بچی کی تربیت شاید یہی ہونی چاہیئے اور شاید یہی صحیح عمر ہے تربیت کی لیکن افسوس جب ہم یہ فرق بچیوں کے ذہن میں ڈانا شروع کرتے ہیں تب تک دیر ہو چکی ہوتی ہے اور پھر الزامات ہم دھر دیتے ہیں سوشل میڈیا اور مخلوط نظام تعلیم کے سر پر
لیکن بحیثیت والدین ذرا خود سوچیں ہم اپنے بچوں کو کیا تربیت دے رہیں ہیں میری نظریں شرمندگی سے اپنی ڈیڑھ سالہ بھتیجی کی نیکر پہنے ننگی ٹانگوں اور ننگے بازوؤں کی طرف تھیں جسے میں اسی طرح باہر لے آئی تھی یہ سوچے بنا کہ اس بچی کے لیئے بڑے ہونے کے بعد اس لباس میں کوئی خرابی نا رہے گی کبونکہ یہ لباس وہ بچپن سے پہن کر باہر جاتی رہی ہے۔ شاید بہت سے لوگوں کو میری یہ باتیں اور سوچ آؤٹ ڈیٹڈ اور دقیانوسی لگے لیکن بحیثیت مسلمان ہمیں ان چھوٹے چھوٹے پہلوؤں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی آئندہ آنے والی نسل کے ذہن میں کیا بھر رہے ہیں