bint-e-masroor
04-29-2015, 11:15 AM
میرے استاد جی ایک دن مجھے قصہ سنا رہے تھے کہ "جہانگیر پتر میرا ایک رشتے دار یہاں کراچی میں نوکری کی غرض سے آیا اور فشری کے پاس ہی کسی علاقے میں رہنے کے لئے مکان لیا- اب وہاں مسئلہ یہ ہوا کہ مچھلیوں کی بو کی وجہ سے اس محلے میں قدم رکھنا بھی محال ہوتا تھا- اس نے سوچا کسی طرح بو کو ختم کر کے ہی رہوں گا۔۔۔۔۔۔اور پھر وہ روزانہ 2 سے 3 مرتبہ گھر دھوتا اور مختلف پرفیوم چھڑکتا اور پھر کچھ ہفتوں بعد بقول اس کے اس نے بو ختم کردی تو استاد جی کو اپنے گھر بلایا اور بڑے فخر سے کہا کہ دیکھو میرا گھر ہی کیا پورے محلے میں ہی کوئی بدبو نہیں رہی۔۔۔۔۔تو میں نے بھی اثبات میں سر ہلادیا پر جہانگیر پتر بدبو تو اب بھی آرہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
ارے استاد جی جب بدبو آرہی تھی تو آپ نے اس کی بات پر اعتراض کیوں نہیں کیا اور اس نے جھوٹ کیوں بولا کہ بدبو نہیں آرہی ہے؟؟
"جہانگیر پتر دراصل بدبو میں رہتے رہتے اس کے دماغ نے اسے قبول کرلیا تھا اور جس چیز کو دماغ قبول کر لے پھر چاہے وہ کچھ بھی ہو اس کا نقص مرجاتا ہے ویسے ہی دماغ نے اس بو کو قبول کر لیا تھا لٰہذا وہ اس کی نظر میں بدبو ہی نہیں رہی تو اسے کیا سمجھ لگتی یا میں کیا سمجھاتا؟؟
آج یہ واقعہ کچھ دوستوں کی حالت پر پورا اترتا ہے- بے حیائی دیکھتے دیکھتے ان کا دماغ اس کے زیر اثر آگیا ہے لہٰذا اب انہیں بے حیائی روشن خیالی اور جدت پسندی دیکھنے لگی ہے کیونکہ ان کے دماغ نے اسے قبول کر لیا ہے ان کے پاس ہزاروں خود ساختہ وجوہات ہیں یہ بتانے کی کہ بوسہ لینا تو بےحیائی ہے ہی نہیں اور پھر جیسے جیسے یہ "سلو پوائزن" اپنا اثر دکھاتا رہے گا ان کی حیا والی حس مرتی جائے گی اور ایک دن یہ بے لباسی کو بھی بے حیائی کے زمرے سے نکال پھینکیں گے جیسے مغرب آج کرچکا ہے۔۔۔۔۔۔
میرے سوہنے نبی صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے صدیوں پہلے ہی کہہ دیا تھا
"جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو- (الحدیث)"
ملک جہانگیر اقبال کی کتاب پیچیدہ تخلیق سے اقتباس
ارے استاد جی جب بدبو آرہی تھی تو آپ نے اس کی بات پر اعتراض کیوں نہیں کیا اور اس نے جھوٹ کیوں بولا کہ بدبو نہیں آرہی ہے؟؟
"جہانگیر پتر دراصل بدبو میں رہتے رہتے اس کے دماغ نے اسے قبول کرلیا تھا اور جس چیز کو دماغ قبول کر لے پھر چاہے وہ کچھ بھی ہو اس کا نقص مرجاتا ہے ویسے ہی دماغ نے اس بو کو قبول کر لیا تھا لٰہذا وہ اس کی نظر میں بدبو ہی نہیں رہی تو اسے کیا سمجھ لگتی یا میں کیا سمجھاتا؟؟
آج یہ واقعہ کچھ دوستوں کی حالت پر پورا اترتا ہے- بے حیائی دیکھتے دیکھتے ان کا دماغ اس کے زیر اثر آگیا ہے لہٰذا اب انہیں بے حیائی روشن خیالی اور جدت پسندی دیکھنے لگی ہے کیونکہ ان کے دماغ نے اسے قبول کر لیا ہے ان کے پاس ہزاروں خود ساختہ وجوہات ہیں یہ بتانے کی کہ بوسہ لینا تو بےحیائی ہے ہی نہیں اور پھر جیسے جیسے یہ "سلو پوائزن" اپنا اثر دکھاتا رہے گا ان کی حیا والی حس مرتی جائے گی اور ایک دن یہ بے لباسی کو بھی بے حیائی کے زمرے سے نکال پھینکیں گے جیسے مغرب آج کرچکا ہے۔۔۔۔۔۔
میرے سوہنے نبی صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے صدیوں پہلے ہی کہہ دیا تھا
"جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو- (الحدیث)"
ملک جہانگیر اقبال کی کتاب پیچیدہ تخلیق سے اقتباس