Rania
02-25-2015, 07:24 AM
ہیرو ایک کردار
::::::::::::::::::
ایک صاحب نے اپنے ٧ ،٨ سالہ بچے کو موٹر بائیک کے آگے بیٹھا کر تیزی سے سڑک کا موڑکاٹا کہ یکایک سامنے سے ایک گاڑی والا آ گیا جوکہ اپنی درست لائن میں آرام سے آ رہاتھا ۔۔
موٹر سائیکل والا قدرے تیز تھا لیکن گاڑی والے نے بہت ہمت کر کے اپنی گاڑی کو بریک لگائی ، پھر بھی اس ایمرجنسی بریک میں بائیک والے کی ایک ٹانگ پر ہلکی سی خراش آئی اور وہ گرتے گرتے بال بال بچا۔۔
١٠ قدم پر جاکر اُس نے بائیک روک لی بچے کو وہیں بیٹھا رہنے دیا ( جو قدرے خوف ذدہ ہو گیا تھا ، اور نہیں چاہتا تھا کہ اُس کا والد اُسے چھوڑ کر جائے ) ۔۔
بائیک والے نے آتے ہی گاڑی والے کے گریبان کو پکڑ کر اُسے گاڑی سے باہر نکالا ،، اور اُسے گالی گلوچ کرنے لگ گیا ۔۔گاڑی والا جو بہت دھیما بھلا مانس انسان لگ رہا تھا اُس بائیک والے سے کہنے لگا۔۔۔!!
““ غلطی تمہاری ہے ، تمہیں موڑ کاٹتے ہوئے بائیک کو آہستہ کرنا چاہے تھا ،، پھر بھی میں تم سے اُلجھنا نہیں چاہتا ۔۔ ““
لیکن بائیک والا بہت غصے میں تھا اور گاڑی والے سے لڑنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔
آخر کار گاڑی والے نے معاملہ ختم کرنے کے لئے وہ جملہ کہا جس نے معاشرتی اقدار میں پلتی ہماری نئی نسلوں کے زہنوں کا احاطہ کیا ہواہے ۔۔
““““ دیکھو تمہارا بچہ تمہیں بڑے معصوم انداز سے دیکھ رہا ہے ۔۔ تم مجھ سے الجھو گے تو بات ہاتھا پائی تک پہنچے گی ، میں اکیلا ہوں مجھے میرا کوئی نہیں دیکھ رہا ، لیکن تمہارے ساتھ تمہارا بچہ ہے اگر اُس نے آج تمہیں مجھ سے مارکھاتا دیکھ لیا تو اُس کی سوچ کہ تم اُس زندگی میں اس کا سب سے بڑا سہارا ہو ختم ہو جائے گی ، جو اس کے بچپن کے لئے انتہائی خطرناک ہے ، اُس کے اندر سے تمہاری صورت میں ایک ““ ہیرو ““ مر جائے گا ۔۔۔۔۔““
یہ سُننا تھا کہ بائیک والے کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔۔۔ اُس نے جلدی سے گاڑی والے سے معافی مانگتے ہوئے اُس کے گریبان کی سلوٹیں ٹھیک کیں اور واپس بائک پر آکر اپنے بچے کو پیار کرنے لگا ““ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔۔““
“ اس دانشمندی سے اُس بائیک والے نے اپنے بچے کے دل میں ““ ہیرو ““ کو مرنے نہیں دیا ۔
(تحریر : سید شاکرحسین رضوی
::::::::::::::::::
ایک صاحب نے اپنے ٧ ،٨ سالہ بچے کو موٹر بائیک کے آگے بیٹھا کر تیزی سے سڑک کا موڑکاٹا کہ یکایک سامنے سے ایک گاڑی والا آ گیا جوکہ اپنی درست لائن میں آرام سے آ رہاتھا ۔۔
موٹر سائیکل والا قدرے تیز تھا لیکن گاڑی والے نے بہت ہمت کر کے اپنی گاڑی کو بریک لگائی ، پھر بھی اس ایمرجنسی بریک میں بائیک والے کی ایک ٹانگ پر ہلکی سی خراش آئی اور وہ گرتے گرتے بال بال بچا۔۔
١٠ قدم پر جاکر اُس نے بائیک روک لی بچے کو وہیں بیٹھا رہنے دیا ( جو قدرے خوف ذدہ ہو گیا تھا ، اور نہیں چاہتا تھا کہ اُس کا والد اُسے چھوڑ کر جائے ) ۔۔
بائیک والے نے آتے ہی گاڑی والے کے گریبان کو پکڑ کر اُسے گاڑی سے باہر نکالا ،، اور اُسے گالی گلوچ کرنے لگ گیا ۔۔گاڑی والا جو بہت دھیما بھلا مانس انسان لگ رہا تھا اُس بائیک والے سے کہنے لگا۔۔۔!!
““ غلطی تمہاری ہے ، تمہیں موڑ کاٹتے ہوئے بائیک کو آہستہ کرنا چاہے تھا ،، پھر بھی میں تم سے اُلجھنا نہیں چاہتا ۔۔ ““
لیکن بائیک والا بہت غصے میں تھا اور گاڑی والے سے لڑنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔
آخر کار گاڑی والے نے معاملہ ختم کرنے کے لئے وہ جملہ کہا جس نے معاشرتی اقدار میں پلتی ہماری نئی نسلوں کے زہنوں کا احاطہ کیا ہواہے ۔۔
““““ دیکھو تمہارا بچہ تمہیں بڑے معصوم انداز سے دیکھ رہا ہے ۔۔ تم مجھ سے الجھو گے تو بات ہاتھا پائی تک پہنچے گی ، میں اکیلا ہوں مجھے میرا کوئی نہیں دیکھ رہا ، لیکن تمہارے ساتھ تمہارا بچہ ہے اگر اُس نے آج تمہیں مجھ سے مارکھاتا دیکھ لیا تو اُس کی سوچ کہ تم اُس زندگی میں اس کا سب سے بڑا سہارا ہو ختم ہو جائے گی ، جو اس کے بچپن کے لئے انتہائی خطرناک ہے ، اُس کے اندر سے تمہاری صورت میں ایک ““ ہیرو ““ مر جائے گا ۔۔۔۔۔““
یہ سُننا تھا کہ بائیک والے کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔۔۔ اُس نے جلدی سے گاڑی والے سے معافی مانگتے ہوئے اُس کے گریبان کی سلوٹیں ٹھیک کیں اور واپس بائک پر آکر اپنے بچے کو پیار کرنے لگا ““ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔۔““
“ اس دانشمندی سے اُس بائیک والے نے اپنے بچے کے دل میں ““ ہیرو ““ کو مرنے نہیں دیا ۔
(تحریر : سید شاکرحسین رضوی