Rania
01-23-2015, 02:12 PM
وہ دن مجھے آج بھی یاد ھے جب میں ماں کیساتھ بازار گیا ہوا تھا تو کلائی پر باندھنے والی ایک گھڑی پر دل آ گیا میں نے ماں سے ضد کی کہ "مجھے یہ گھڑٰی خرید کر دیں۔۔۔!"، لیکن گھڑی مہنگی ھونے کے سبب ماں نہ دلوا سکی اور میں ضد کرتا روتا ہوا ماں کیساتھ گھر آ گیا۔ گھر آتے ہی گھر سر پر اُٹھا لیا اُس وقت خوش قسمتی یہ تھی کہ والدِ محترم گھر موجود نہ تھے ورنہ اتنا شور مچانے کی ہمت ہی نہ ہوتی اور گھڑی کی حسرت صرف حسرت ہی رہ جاتی پر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
پھر ہوا کچھ یوں کہ ماں نے کھانا دیا اور میں نے انکار کیساتھ ساتھ کھانا بھی اُٹھا مارا، بس وہیں ماں کو بھی تھوڑا غصہ آگیا اور آخر انہوں نے کہہ ہی دیا "نہیں کھانا تو نہ کھاؤ، مرو جا کر کہیں۔۔!، تمہارے نخرے اُٹھانے کیلئے ہمارے پاس اتنے فضول پیسے نہیں ہیں دفع ہو جاؤ، اور مجھے دوبارہ اپنی شکل مت دکھانا۔۔!"
بس پھر کیا تھا، ماں کا یہ انداز دیکھ کر میں اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکا اور منہ اُٹھا کر گھر سے چل دیا۔ غالباً سات سے آٹھ گھنٹے بمشکل میں نے گھر سے باہر گزارے ہونگے، لیکن دوسری طرف یہی وہ وقت تھا جو ماں کیلئے زندگی کے سب سے کربناک لمحموں میں سے تھا۔
اس بات کا اندازہ اُس وقت ہوا جب میں نے ایک مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے اپنی گمشدگی کا اعلان سُنا تو گھر کی جانب رُخ کر لیا، راستے میں میرا کزن ملا جو مجھے ہی ڈھونڈنے نکلا تھا، مجھے گھر لے گیا، جاتے ہی کیا دیکھا ماں ایک ہاتھ میں گھڑی، دوسرے ہاتھ میں کھانا پکڑے، سرخ آنکھوں میں آنسو اور ہونٹوں پر کپکبی لیے بیٹھی میری راہ تک رہی تھیں، مجھے دیکھتے ہی بھاگ کر دیوانہ وار گلے سے لگایا، میرا چہرہ ہاتھ میں پکڑ کر ماتھا چومتے ہوئے گھڑی میری کلائی سے باندھی، اور روتے ہوئے بولی، "کہاں تھے تم دوپہر سے۔۔؟ دیکھو کھانا بھی نہیں کھایا اور کیا حشر کر لیا ہے اپنا۔۔!! اور پھر جو مرنے کی بات مجھے کہی تھی، اپنے اُوپر لے لیتے ہوئے بولی، "اگر میں تیری جدائی ویچ مر جاندی تے فیر ساری عمر تو کَڑیاں ای پانیاں سی۔۔!" (اگر میں تمہاری جدائی میں مر جاتی تو پھر ساری عمر تم گھڑیاں ہی پہنتے)
دوستو! اُس دن نادانی میں ہونے والا ایک واقعہ جو مجھے اب بھی کبھی یاد آتا ہے تو اپنے بال نوچنے کو جی کرتا ہے، اگر کبھی رات کو سوتے میں یاد آ جائے تو ہڑبڑا کے اُٹھ جاتا ہوں اور پھر ساری رات آنکھوں میں گزرتی جاتی ھے۔ پردیس میں رہتے ہوئے جی کرتا ہے ابھی اُڑ کر ماں کے پاس چلا جاؤں اور سر پیٹ پیٹ کر اُنکے قدموں میں جان دے دوں۔ جب یہ یاد آتا ھے کہ ماں نے اپنے جہیز میں ملی ہزاروں ملکیت کی کان کی بالیاں صرف پانچ سو روپے میں بیچ کر میرے لیے گھڑی خریدی تھی۔۔!!
پھر ہوا کچھ یوں کہ ماں نے کھانا دیا اور میں نے انکار کیساتھ ساتھ کھانا بھی اُٹھا مارا، بس وہیں ماں کو بھی تھوڑا غصہ آگیا اور آخر انہوں نے کہہ ہی دیا "نہیں کھانا تو نہ کھاؤ، مرو جا کر کہیں۔۔!، تمہارے نخرے اُٹھانے کیلئے ہمارے پاس اتنے فضول پیسے نہیں ہیں دفع ہو جاؤ، اور مجھے دوبارہ اپنی شکل مت دکھانا۔۔!"
بس پھر کیا تھا، ماں کا یہ انداز دیکھ کر میں اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکا اور منہ اُٹھا کر گھر سے چل دیا۔ غالباً سات سے آٹھ گھنٹے بمشکل میں نے گھر سے باہر گزارے ہونگے، لیکن دوسری طرف یہی وہ وقت تھا جو ماں کیلئے زندگی کے سب سے کربناک لمحموں میں سے تھا۔
اس بات کا اندازہ اُس وقت ہوا جب میں نے ایک مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے اپنی گمشدگی کا اعلان سُنا تو گھر کی جانب رُخ کر لیا، راستے میں میرا کزن ملا جو مجھے ہی ڈھونڈنے نکلا تھا، مجھے گھر لے گیا، جاتے ہی کیا دیکھا ماں ایک ہاتھ میں گھڑی، دوسرے ہاتھ میں کھانا پکڑے، سرخ آنکھوں میں آنسو اور ہونٹوں پر کپکبی لیے بیٹھی میری راہ تک رہی تھیں، مجھے دیکھتے ہی بھاگ کر دیوانہ وار گلے سے لگایا، میرا چہرہ ہاتھ میں پکڑ کر ماتھا چومتے ہوئے گھڑی میری کلائی سے باندھی، اور روتے ہوئے بولی، "کہاں تھے تم دوپہر سے۔۔؟ دیکھو کھانا بھی نہیں کھایا اور کیا حشر کر لیا ہے اپنا۔۔!! اور پھر جو مرنے کی بات مجھے کہی تھی، اپنے اُوپر لے لیتے ہوئے بولی، "اگر میں تیری جدائی ویچ مر جاندی تے فیر ساری عمر تو کَڑیاں ای پانیاں سی۔۔!" (اگر میں تمہاری جدائی میں مر جاتی تو پھر ساری عمر تم گھڑیاں ہی پہنتے)
دوستو! اُس دن نادانی میں ہونے والا ایک واقعہ جو مجھے اب بھی کبھی یاد آتا ہے تو اپنے بال نوچنے کو جی کرتا ہے، اگر کبھی رات کو سوتے میں یاد آ جائے تو ہڑبڑا کے اُٹھ جاتا ہوں اور پھر ساری رات آنکھوں میں گزرتی جاتی ھے۔ پردیس میں رہتے ہوئے جی کرتا ہے ابھی اُڑ کر ماں کے پاس چلا جاؤں اور سر پیٹ پیٹ کر اُنکے قدموں میں جان دے دوں۔ جب یہ یاد آتا ھے کہ ماں نے اپنے جہیز میں ملی ہزاروں ملکیت کی کان کی بالیاں صرف پانچ سو روپے میں بیچ کر میرے لیے گھڑی خریدی تھی۔۔!!