bint-e-masroor
09-27-2014, 08:36 AM
https://fbcdn-sphotos-b-a.akamaihd.net/hphotos-ak-xap1/v/t1.0-9/10671267_726023977434778_7145771669352981737_n.png ?oh=8c27895fe43318e8746b1ad6bc177477&oe=548C910C&__gda__=1418374096_fa65eeb30f55e6474308be86a2a9775 1
آج کی کہانی ۔۔۔۔۔ زندہ معجزہ
آسمان کی سمت سیاہ دھواں دیکھتے ہی دیکھتے چھا گیا۔ میں کمرے سے نماز ظہر کے لیے وضو کرنے نکلی تو نظر پڑی۔ ’’یہ آج ریلوے اسٹیشن مشرق کی سمت آ گیا!‘‘ میں نے خود کلامی کرتے ہوئے سوچا۔ لوکوشیڈ نزدیک ہونے کی وجہ سے شمال والا علاقہ اکثر و بیشتر سیاہ دھوئیں سے بھرا رہتا تھا۔
اچانک نچلی منزل سے زور زور سے بولنے کی آوازیں آنے لگیں ’’باجی! باجی! اسٹور سے بالٹی دینا۔‘‘ چھوٹا بھائی کاشف آوازیں دیتا بھاگتا اوپر آیا۔
میں اس کے ہڑبونگ سے پہلے حیران اور پھر پریشان ہوئی۔ گھبرا کر پوچھا ’’ارے کہاں دوڑے جا رہے ہو؟ کیا ہوا ہے؟‘‘
’’وہ‘ وہ آگ لگ گئی ہے۔‘‘ اس نے سراسیمہ حالت میں جواب دیا اور بالٹی اٹھائے دھڑادھڑ سیڑھیاں اترتا چلا گیا۔
میرے ’’کب‘ کہاں‘‘ کے جواب میں ’’چچانواز کے گھر‘‘ نے میرے دل و دماغ میں قیامت ڈھا دی۔
’’اوہ خدایا رحم! یہ کیا ہو گیا۔‘‘ ہمارا محلہ امن و شانتی میں اپنی مثال آپ تھا۔ نہ کوئی حادثہ نہ کوئی مصیبت‘ سب ایک دوسرے کے ساتھ یوں پیش آتے جیسے ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوں۔
میں نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے جلدی سے چادر ڈھونڈی اور نیچے پہنچی۔ سارا خالی گھر بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ میں فوراً مرکزی دروازہ کھول باہر آ گئی۔
شعلے اور دھواں دس گھروں کے فاصلے سے بھی جہنم کے منظر کی یاد دلا رہا تھا۔ آگے بڑھنے کی میری ہمت جواب دے گئی۔ مرے مرے قدموں سے گھر واپس آئی اور نماز پڑھنے لگی۔ پھر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں کہ چچانواز اور اُن کے اہل خانہ سلامت رہیں۔ جونہی سلام پھیرا تو نبیل بھائی اندر آئے۔ میں بھاگ کر ان کے پاس پہنچی۔ ’’سب خیریت ہے ناں بھیا؟‘‘ میں سراپاسوال تھی۔
’’خیریت کہاں گڑیا‘ سب کچھ جل گیا‘ سب کچھ۔‘‘ انھوں نے افسردہ لہجے میں میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے جواب دیا۔
’’ہوا کیا ہے؟ آگ کیسے لگی؟ چچا اور بچے تو ٹھیک ہیں نا۔‘‘
میں نے ایک ہی سانس میں سارے سوال کر ڈالے۔
’’ذرا صبر کرو۔ بھائی تھکا آیا ہے۔ اُسے پانی لا کر دو‘ آتے ہی چھان بین شروع کر دی۔‘‘ امی نے اندر داخل ہوتے ہی کہا۔
میں جلدی سے پانی لے آئی۔تب امی نے بتایا ’’نواز اور اس کی بیوی بیمار بھائی کی عیادت کرنے گئے تھے۔ چاروں بچے گھر پر تھے۔ دونوں بڑے تو ماں باپ کے جاتے ہی گھر سے نکل گئے۔ تین اور آٹھ سالہ ذیشان اور رضوان گھر پر رہے۔ انھوں نے کھیلتے کھیلتے کہیں ماچس کی تیلی جلائی۔ وہ کپاس کی خشک لکڑیوںمیں گری اور آگ لگ گئی۔ چونکہ گھر پر کوئی نہ تھا‘ اس لیے پتا نہیں چلا۔
’’دونوں چھوٹے بچے بھی آگ تیز ہوتے ہی گھر سے باہر نکل آئے۔ لیکن کسی کو کچھ نہیں بتایا۔ تیز ہوا نے جلد آگ کو پورے گھر میں پھیلا دیا۔ دوپہر کا وقت تھا‘ ہمسائے محو خواب تھے۔ نماز کے لیے اُٹھے تو نظر پڑی۔ مگر آگ بجھاتے بجھاتے سب کچھ ختم ہو گیا۔‘‘ اللہ کا شکر ہے جانیں بچ گئیں۔‘‘
’’تمہاری چچی کی حالت تو بہت ہی خراب ہے۔ رو رو کر برا حال کر لیا ہے۔ نبیل بھائی کے لہجے میں تاسف اور پریشانی نمایاں تھی۔ ’’مجھ میں تو وہاں سب کچھ دیکھنے کا حوصلہ ہی ختم ہوگیا۔ کیسے انھوں نے تنکاتنکا جوڑ کر گھر بنایا سنوارا تھا‘ پل بھر میں سب کچھ ختم ہو گیا۔‘‘
’’سب کچھ ختم نہیں ہوا ‘ یہ دیکھو دو جہاں کے مالک کی کتاب بالکل درست حالت میں موجود ہے۔ اور یہ دیکھو اس پر لپٹا ہوا کپڑا بالکل جھلس چکا۔‘‘ ابو جی نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
ان کے ہاتھوں میں قرآن پاک تھا۔ اس کی جلد پر کپڑا جل کر چپکنے کے نشانات واضح تھے لیکن الفاظ کوآگ نے چھوا تک نہیں تھا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس کے اندر رکھے گئے ۳۰۰ روپے بھی درست حالت میں تھے۔
میں نے جلدی سے ابو جی کے ہاتھوں سے قرآن پاک لیا اور روتے ہوئے چومنے لگی۔
’’یہ تو معجزہ ہے معجزہ! قرآن پاک کا زندہ معجزہ! اگر کاغذ پہ لکھے قرآن پاک کو آگ نہیں چھو سکتی تو جن دلوں کے اندر قرآن پاک ہے اور جن لوگوں کے جسم احکام قرآنی پر عمل کر رہے ہیں، انھیں جہنم کی آگ کیسے جلا سکے گی؟‘‘ امی نم آنکھوں کے ساتھ قرآن پاک کو بوسہ دیتے بے ساختہ بول اٹھیں۔
ابو جی نے آسمان کی طرف منہ کرتے ہوئے کہا ’’یہ تو اللہ نے ہم جیسوں کو دکھانا تھا کہ گمراہی میں پڑے لوگو! آئو دیکھو‘ میرے کلام کی تاثیر کہ جہاں کپڑے کا ایک چیتھڑا نہ بچا‘ یہاں تک کہ جستی پیٹی کے اندر رکھے کپڑے تک جل گئے، وہاں کھلے طاق میں کپڑے میں لپٹا قرآن پاک محفوظ رہا اور اس کے اندر رکھے تین سو روپے بھی۔
’’میں نے نواز سے کہا ہے‘ بھائی، یہ تین سو روپے بہت بابرکت ہیں اور تیرے سارے دکھوں کا علاج بھی! غم نہ کر اللہ پاک ان روپوں سے تیرے گھر میں بہت برکت ڈالے گا۔
تیرا گھر تو اللہ کی شان اور قرآن پاک کے معجزہ وقوع ہونے کی جگہ ہے۔ تیرے لیے تو پروردگار اب خیر ہی خیر رکھے گا۔
وہ پھر بہت پرسوز آواز میں کہنے لگے ’’میرا رب فرماتا ہے:
انا نخن نزلنا الذکر وانالہ لحافظون۔(سورہ الحجر۔۹)
(بے شک ہم ہی نے اسے اُتارا اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔)
*
آج کی کہانی ۔۔۔۔۔ زندہ معجزہ
آسمان کی سمت سیاہ دھواں دیکھتے ہی دیکھتے چھا گیا۔ میں کمرے سے نماز ظہر کے لیے وضو کرنے نکلی تو نظر پڑی۔ ’’یہ آج ریلوے اسٹیشن مشرق کی سمت آ گیا!‘‘ میں نے خود کلامی کرتے ہوئے سوچا۔ لوکوشیڈ نزدیک ہونے کی وجہ سے شمال والا علاقہ اکثر و بیشتر سیاہ دھوئیں سے بھرا رہتا تھا۔
اچانک نچلی منزل سے زور زور سے بولنے کی آوازیں آنے لگیں ’’باجی! باجی! اسٹور سے بالٹی دینا۔‘‘ چھوٹا بھائی کاشف آوازیں دیتا بھاگتا اوپر آیا۔
میں اس کے ہڑبونگ سے پہلے حیران اور پھر پریشان ہوئی۔ گھبرا کر پوچھا ’’ارے کہاں دوڑے جا رہے ہو؟ کیا ہوا ہے؟‘‘
’’وہ‘ وہ آگ لگ گئی ہے۔‘‘ اس نے سراسیمہ حالت میں جواب دیا اور بالٹی اٹھائے دھڑادھڑ سیڑھیاں اترتا چلا گیا۔
میرے ’’کب‘ کہاں‘‘ کے جواب میں ’’چچانواز کے گھر‘‘ نے میرے دل و دماغ میں قیامت ڈھا دی۔
’’اوہ خدایا رحم! یہ کیا ہو گیا۔‘‘ ہمارا محلہ امن و شانتی میں اپنی مثال آپ تھا۔ نہ کوئی حادثہ نہ کوئی مصیبت‘ سب ایک دوسرے کے ساتھ یوں پیش آتے جیسے ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوں۔
میں نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے جلدی سے چادر ڈھونڈی اور نیچے پہنچی۔ سارا خالی گھر بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ میں فوراً مرکزی دروازہ کھول باہر آ گئی۔
شعلے اور دھواں دس گھروں کے فاصلے سے بھی جہنم کے منظر کی یاد دلا رہا تھا۔ آگے بڑھنے کی میری ہمت جواب دے گئی۔ مرے مرے قدموں سے گھر واپس آئی اور نماز پڑھنے لگی۔ پھر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں کہ چچانواز اور اُن کے اہل خانہ سلامت رہیں۔ جونہی سلام پھیرا تو نبیل بھائی اندر آئے۔ میں بھاگ کر ان کے پاس پہنچی۔ ’’سب خیریت ہے ناں بھیا؟‘‘ میں سراپاسوال تھی۔
’’خیریت کہاں گڑیا‘ سب کچھ جل گیا‘ سب کچھ۔‘‘ انھوں نے افسردہ لہجے میں میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے جواب دیا۔
’’ہوا کیا ہے؟ آگ کیسے لگی؟ چچا اور بچے تو ٹھیک ہیں نا۔‘‘
میں نے ایک ہی سانس میں سارے سوال کر ڈالے۔
’’ذرا صبر کرو۔ بھائی تھکا آیا ہے۔ اُسے پانی لا کر دو‘ آتے ہی چھان بین شروع کر دی۔‘‘ امی نے اندر داخل ہوتے ہی کہا۔
میں جلدی سے پانی لے آئی۔تب امی نے بتایا ’’نواز اور اس کی بیوی بیمار بھائی کی عیادت کرنے گئے تھے۔ چاروں بچے گھر پر تھے۔ دونوں بڑے تو ماں باپ کے جاتے ہی گھر سے نکل گئے۔ تین اور آٹھ سالہ ذیشان اور رضوان گھر پر رہے۔ انھوں نے کھیلتے کھیلتے کہیں ماچس کی تیلی جلائی۔ وہ کپاس کی خشک لکڑیوںمیں گری اور آگ لگ گئی۔ چونکہ گھر پر کوئی نہ تھا‘ اس لیے پتا نہیں چلا۔
’’دونوں چھوٹے بچے بھی آگ تیز ہوتے ہی گھر سے باہر نکل آئے۔ لیکن کسی کو کچھ نہیں بتایا۔ تیز ہوا نے جلد آگ کو پورے گھر میں پھیلا دیا۔ دوپہر کا وقت تھا‘ ہمسائے محو خواب تھے۔ نماز کے لیے اُٹھے تو نظر پڑی۔ مگر آگ بجھاتے بجھاتے سب کچھ ختم ہو گیا۔‘‘ اللہ کا شکر ہے جانیں بچ گئیں۔‘‘
’’تمہاری چچی کی حالت تو بہت ہی خراب ہے۔ رو رو کر برا حال کر لیا ہے۔ نبیل بھائی کے لہجے میں تاسف اور پریشانی نمایاں تھی۔ ’’مجھ میں تو وہاں سب کچھ دیکھنے کا حوصلہ ہی ختم ہوگیا۔ کیسے انھوں نے تنکاتنکا جوڑ کر گھر بنایا سنوارا تھا‘ پل بھر میں سب کچھ ختم ہو گیا۔‘‘
’’سب کچھ ختم نہیں ہوا ‘ یہ دیکھو دو جہاں کے مالک کی کتاب بالکل درست حالت میں موجود ہے۔ اور یہ دیکھو اس پر لپٹا ہوا کپڑا بالکل جھلس چکا۔‘‘ ابو جی نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
ان کے ہاتھوں میں قرآن پاک تھا۔ اس کی جلد پر کپڑا جل کر چپکنے کے نشانات واضح تھے لیکن الفاظ کوآگ نے چھوا تک نہیں تھا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس کے اندر رکھے گئے ۳۰۰ روپے بھی درست حالت میں تھے۔
میں نے جلدی سے ابو جی کے ہاتھوں سے قرآن پاک لیا اور روتے ہوئے چومنے لگی۔
’’یہ تو معجزہ ہے معجزہ! قرآن پاک کا زندہ معجزہ! اگر کاغذ پہ لکھے قرآن پاک کو آگ نہیں چھو سکتی تو جن دلوں کے اندر قرآن پاک ہے اور جن لوگوں کے جسم احکام قرآنی پر عمل کر رہے ہیں، انھیں جہنم کی آگ کیسے جلا سکے گی؟‘‘ امی نم آنکھوں کے ساتھ قرآن پاک کو بوسہ دیتے بے ساختہ بول اٹھیں۔
ابو جی نے آسمان کی طرف منہ کرتے ہوئے کہا ’’یہ تو اللہ نے ہم جیسوں کو دکھانا تھا کہ گمراہی میں پڑے لوگو! آئو دیکھو‘ میرے کلام کی تاثیر کہ جہاں کپڑے کا ایک چیتھڑا نہ بچا‘ یہاں تک کہ جستی پیٹی کے اندر رکھے کپڑے تک جل گئے، وہاں کھلے طاق میں کپڑے میں لپٹا قرآن پاک محفوظ رہا اور اس کے اندر رکھے تین سو روپے بھی۔
’’میں نے نواز سے کہا ہے‘ بھائی، یہ تین سو روپے بہت بابرکت ہیں اور تیرے سارے دکھوں کا علاج بھی! غم نہ کر اللہ پاک ان روپوں سے تیرے گھر میں بہت برکت ڈالے گا۔
تیرا گھر تو اللہ کی شان اور قرآن پاک کے معجزہ وقوع ہونے کی جگہ ہے۔ تیرے لیے تو پروردگار اب خیر ہی خیر رکھے گا۔
وہ پھر بہت پرسوز آواز میں کہنے لگے ’’میرا رب فرماتا ہے:
انا نخن نزلنا الذکر وانالہ لحافظون۔(سورہ الحجر۔۹)
(بے شک ہم ہی نے اسے اُتارا اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔)
*