bint-e-masroor
09-23-2014, 09:29 AM
ایک عظیم ماں
-------
یہ امّ نضال ہیں…فلسطین کے ایک فدائی مجاہد محمد فرحات کی والدہ، جن کی عمر اسّی(80) سال سے متجاوز ہے، ان کے کل چار بیٹے تھے اور چاروں ہی مجاہدین فلسطین کے ساتھ صف آراء ہو کر یہودیوں کیلئے بر سر پیکار تھے۔ مگر اب سے چند دن پہلے ہی ان کے سب چھوٹے بیٹے محمد فرحات نے یہودیوں پر ایک زبردست قسم کا فدائی حملہ کیا اور دس یہودیوں کو ہلاک اور پچیس سے زائد کو زخمی کردیا۔ یوں تو فلسطین کی جد وجہد آزادی فدائی حملوں سے بھری پڑی ہے مگر محمد فرحات کو یہ سب سے انوکھا اور منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اس کو اس کی والدہ نے خود فدائی حملے کیلئے تیار کیا تھا اور آخری دم تک اس کی حوصلہ افزائی بھی کی تھی۔ بلکہ جب محمد فرحات اپنے لباس میں چھ گرنیڈ چھپائے اسرائیلی فوج کی چھاؤنی کی جانب بڑھ رہا تھا تو اس وقت اس کی بوڑھی، ضعیف اور کمزور سی والدہ امّ نضال جائے نماز پر بیٹھی اپنے بیٹے کے حملے کی کامیابی کیلئے دعائیں کر رہی تھیں اور پھر یہ ماں کی دعائوں ہی کا ثمر تھا کہ محمد فرحات نے یہودیوں پر کامیاب ترین حملہ کیا اور خود بھی جام شہادت نوش کرکے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کامیاب ہوگیا۔
آئیے!… امّ نضال سے ملتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے اپنے بیٹے محمد کو کیسے فدائی حملے کیلئے تیار کیا؟
اُم نضال کہتی ہیں… جہاد ہمارے اوپر فرض ہے اور ہم میں سے ہر عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دلوں میں شوقِ جہاد کو اجاگر کرے۔ ہماری قوم کو ہر وقت یہودیوں کے ظلم و ستم کا سامنا رہتا ہے اور ظلم کا جواب صرف جہاد ہی ہے۔ لہٰذا میں نے اپنے بچوں کے دلوں میں شروع سے ہی خوب اچھے طریقے سے جذبۂ جہاد کو بیدار کیا ہے۔
الحمدللہ میں ایک مسلمان عورت ہوں اور جہاد پر ایمان رکھتی ہوں کیونکہ جہاد ایمان کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضہ ہے اور اسی بات نے مجھے اس پر مجبور کیا کہ میں اپنے چھوٹے بیٹے محمد کو اللہ کے راستے میں قربان کردوں۔ مجھے یقین ہے کہ میرا بیٹا ہلاک نہیں ہوا اور نہ ہی مرا ہے بلکہ وہ زندہ ہے اور مجھ سے اچھی زندگی گزار رہا ہے۔ اگر میں اپنی سوچ کو صرف دنیا تک محدود کرلیتی تو آج اپنے بیٹے کی قربانی کیسے پیش کر سکتی؟ مجھے معلوم ہے کہ جہاد ایک شرعی فریضہ ہے اور یہ ہم سب پر واجب ہے اور محمد کی قربانی کوئی بڑی قربانی نہیں ہے یہ تو میری ذمہ داری کا ایک ادنیٰ سا حصہ ہے، جو میں نے نبھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میرے بیٹے کو شہادت جیسی سعادت حاصل ہوئی ہے۔
آپ کے باقی بیٹے کیا کرتے ہیں؟
امّ نضال: میرے سب بیٹے مجاہد ہیں، ان میں سے سب سے بڑا اسرائیل کو مطلوب ہے۔ میرا دوسرا بیٹا اسرائیلی فوج پر فدائی حملہ کرنے کیلئے گیا تھا لیکن افسوس کہ وہ حملہ نہ کر سکا اور گرفتار ہوگیا۔ یہودیوں نے اسے گیارہ سال قید کی سزا سنائی ہے۔ میرا ایک اور بیٹا مجاہدین کے راہنما شیخ احمد یٰسین (شہیدرحمہ اللہ) کا رفیق خاص اور انہی کے ساتھ رہتا ہے۔‘‘
میرا عقیدہ ہے کہ انسان کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک اللہ تعالیٰ کے راستے میں کوئی قربانی نہ پیش کردے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں وہ شریعت عطا ہوئی ہے جس میں جہاد کو فرض کیا گیا ہے، ورنہ اگر جہاد فرض نہ ہوتا تو ہم کس جذبے کے تحت اپنی اور اپنی ملت کی حفاظت کرتے اور اپنے مقامات مقدسہ کو یہودیوں کے شکنجے سے بچا سکتے؟ الحمدللہ ہمیں فخر ہے کہ ہمیں اس ارض مقدس کیلئے جہاد کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔
محمد کے بھائی نے جب مجھے اس کی کامیابی کی خبر سنائی تو میں نے نعرۂ تکبیر بلند کیا اور سجدۂ شکر بجا لائی۔ محمد کی شہادت کے بعد میرے دل کو سکون نصیب ہوگیا ہے اور میں نے اپنے باقی بیٹوں کو بھی شہادت کیلئے تیار کر رکھاہے۔‘‘
( از: عظیم خواتین)
-------
یہ امّ نضال ہیں…فلسطین کے ایک فدائی مجاہد محمد فرحات کی والدہ، جن کی عمر اسّی(80) سال سے متجاوز ہے، ان کے کل چار بیٹے تھے اور چاروں ہی مجاہدین فلسطین کے ساتھ صف آراء ہو کر یہودیوں کیلئے بر سر پیکار تھے۔ مگر اب سے چند دن پہلے ہی ان کے سب چھوٹے بیٹے محمد فرحات نے یہودیوں پر ایک زبردست قسم کا فدائی حملہ کیا اور دس یہودیوں کو ہلاک اور پچیس سے زائد کو زخمی کردیا۔ یوں تو فلسطین کی جد وجہد آزادی فدائی حملوں سے بھری پڑی ہے مگر محمد فرحات کو یہ سب سے انوکھا اور منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اس کو اس کی والدہ نے خود فدائی حملے کیلئے تیار کیا تھا اور آخری دم تک اس کی حوصلہ افزائی بھی کی تھی۔ بلکہ جب محمد فرحات اپنے لباس میں چھ گرنیڈ چھپائے اسرائیلی فوج کی چھاؤنی کی جانب بڑھ رہا تھا تو اس وقت اس کی بوڑھی، ضعیف اور کمزور سی والدہ امّ نضال جائے نماز پر بیٹھی اپنے بیٹے کے حملے کی کامیابی کیلئے دعائیں کر رہی تھیں اور پھر یہ ماں کی دعائوں ہی کا ثمر تھا کہ محمد فرحات نے یہودیوں پر کامیاب ترین حملہ کیا اور خود بھی جام شہادت نوش کرکے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کامیاب ہوگیا۔
آئیے!… امّ نضال سے ملتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے اپنے بیٹے محمد کو کیسے فدائی حملے کیلئے تیار کیا؟
اُم نضال کہتی ہیں… جہاد ہمارے اوپر فرض ہے اور ہم میں سے ہر عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دلوں میں شوقِ جہاد کو اجاگر کرے۔ ہماری قوم کو ہر وقت یہودیوں کے ظلم و ستم کا سامنا رہتا ہے اور ظلم کا جواب صرف جہاد ہی ہے۔ لہٰذا میں نے اپنے بچوں کے دلوں میں شروع سے ہی خوب اچھے طریقے سے جذبۂ جہاد کو بیدار کیا ہے۔
الحمدللہ میں ایک مسلمان عورت ہوں اور جہاد پر ایمان رکھتی ہوں کیونکہ جہاد ایمان کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضہ ہے اور اسی بات نے مجھے اس پر مجبور کیا کہ میں اپنے چھوٹے بیٹے محمد کو اللہ کے راستے میں قربان کردوں۔ مجھے یقین ہے کہ میرا بیٹا ہلاک نہیں ہوا اور نہ ہی مرا ہے بلکہ وہ زندہ ہے اور مجھ سے اچھی زندگی گزار رہا ہے۔ اگر میں اپنی سوچ کو صرف دنیا تک محدود کرلیتی تو آج اپنے بیٹے کی قربانی کیسے پیش کر سکتی؟ مجھے معلوم ہے کہ جہاد ایک شرعی فریضہ ہے اور یہ ہم سب پر واجب ہے اور محمد کی قربانی کوئی بڑی قربانی نہیں ہے یہ تو میری ذمہ داری کا ایک ادنیٰ سا حصہ ہے، جو میں نے نبھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میرے بیٹے کو شہادت جیسی سعادت حاصل ہوئی ہے۔
آپ کے باقی بیٹے کیا کرتے ہیں؟
امّ نضال: میرے سب بیٹے مجاہد ہیں، ان میں سے سب سے بڑا اسرائیل کو مطلوب ہے۔ میرا دوسرا بیٹا اسرائیلی فوج پر فدائی حملہ کرنے کیلئے گیا تھا لیکن افسوس کہ وہ حملہ نہ کر سکا اور گرفتار ہوگیا۔ یہودیوں نے اسے گیارہ سال قید کی سزا سنائی ہے۔ میرا ایک اور بیٹا مجاہدین کے راہنما شیخ احمد یٰسین (شہیدرحمہ اللہ) کا رفیق خاص اور انہی کے ساتھ رہتا ہے۔‘‘
میرا عقیدہ ہے کہ انسان کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک اللہ تعالیٰ کے راستے میں کوئی قربانی نہ پیش کردے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں وہ شریعت عطا ہوئی ہے جس میں جہاد کو فرض کیا گیا ہے، ورنہ اگر جہاد فرض نہ ہوتا تو ہم کس جذبے کے تحت اپنی اور اپنی ملت کی حفاظت کرتے اور اپنے مقامات مقدسہ کو یہودیوں کے شکنجے سے بچا سکتے؟ الحمدللہ ہمیں فخر ہے کہ ہمیں اس ارض مقدس کیلئے جہاد کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔
محمد کے بھائی نے جب مجھے اس کی کامیابی کی خبر سنائی تو میں نے نعرۂ تکبیر بلند کیا اور سجدۂ شکر بجا لائی۔ محمد کی شہادت کے بعد میرے دل کو سکون نصیب ہوگیا ہے اور میں نے اپنے باقی بیٹوں کو بھی شہادت کیلئے تیار کر رکھاہے۔‘‘
( از: عظیم خواتین)