bint-e-masroor
09-08-2014, 11:23 AM
حضرت معروف کرخی کے گھر جو بھی آتا آپ اس کی خدمت ایک خادم کی طرح کرتے ایک دن ایک ایسا مہمان آیا جو قریب المرگ تھا اس کی جان معلوم نہیں کہاں اٹکی ھوئی تھی رات کو نہ وہ خود سویا نہ کسی اور کو سونے دیا وہ اس قدر تند مزاج تھا کہ میزبان کا ناطقہ بند کر دیتا تھا اڑوس پڑوس کے لوگ بھی اس قریب المرگ کے چیخنے چلانے سے وھاں سے بھاگ گے اب صرف حضرت معروف کرخی اور وہ بیمار رہ گے تھے وۂ رات بھر اس کی خدمت میں مصروف رھے اور اسے برداشت کیا وہ کئی روز تک ان کا مہمان رھا ایک رات یہ بزرگ ذرا سی دیر کے لے سوگے تو مہمان نے بد اخلاقی اور بد زبانی کی انتہا کر دی وہ بار بار یہ الفاظ دھرا رھا تھا لوگ صوفیانہ لباس پہن کر لوگوں کو پھانستے ھیں بھلا جو شخص پیٹ بھر کے کھاے اور گھوڑے بیچ کر سوے بیمار اس کے گھر میں موجود ھو وہ اللہ والا کیسے ھو سکتا ھے حضرت معرف کرخی کی آنکھ کھل گی اور یہ سب اپنے کانوں سے سن لیا انہوں نے اسے کوئی اھمیت ناں دی مگر گھر سے ایک عورت نے قریب آ کر کہا
تم نے کچھ سنا یہ بیمار کیا کہہ رھا ھے مر جاے ایسا مہمان کھاتا بھی ھمارا ھے آرام سے کئی روز سے اس گھر میں نوابوں کی طرح پڑا ھے اور کوستا بھی ھمیں کو ھے کمینے کو تکیہ نہیں دنیا چاھیے بدو کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی بھلا کیا ضرورت ھوتی ھے نااھل کے ساتھ نیکی کیوں کرکے ضائع کی جاے بد مزاج کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا تو ایسے ھی ھے جیسے پیار سے کتے کی پشت سہلائی جاے
حضرت مسکرا کر فرمایا
نیک بخت
اس بیمار کی باتوں کا برا نہ مان وہ تکلیف میں ھے اس لے وھی بک رھا ھے مجھے اس کی باتیں اچھی لگتی ھیں اس سے ھمیں ناراض نیں ھونا چاھیے اسے معذور سمجھ کر ھم اس کی خدمت میں کوئی کمی نہیں کریں گے تجھے یہ معلوم نہیں کہ ایسے انسانوں کی خدمت سے حیات ابدی مل جاتی
کرخ نامی بستی میں ان گنت قبریںان قبروں کو کوئی نہیں پہچانتا لیکن حضرت معروف کرخی کی قبر پر لوگوں کا تانتا بندھا رھتا ھے لوگ فاتحہ پڑھتے ھیں اور آپ کی بخشش کی دعا مانگتے ھیں
سبق
اس حکایت سے ثابت ھوتا ھے کہ اگر مرنے کے بعد زندہ رھنا ھے تو لوگوں کی خدمت کو اپنا شعار بنا لو.
.
.
کرو مہربانی تم اھل زمین پر.
خدا مہربان ھوگا عرش بریں پر
تم نے کچھ سنا یہ بیمار کیا کہہ رھا ھے مر جاے ایسا مہمان کھاتا بھی ھمارا ھے آرام سے کئی روز سے اس گھر میں نوابوں کی طرح پڑا ھے اور کوستا بھی ھمیں کو ھے کمینے کو تکیہ نہیں دنیا چاھیے بدو کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی بھلا کیا ضرورت ھوتی ھے نااھل کے ساتھ نیکی کیوں کرکے ضائع کی جاے بد مزاج کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا تو ایسے ھی ھے جیسے پیار سے کتے کی پشت سہلائی جاے
حضرت مسکرا کر فرمایا
نیک بخت
اس بیمار کی باتوں کا برا نہ مان وہ تکلیف میں ھے اس لے وھی بک رھا ھے مجھے اس کی باتیں اچھی لگتی ھیں اس سے ھمیں ناراض نیں ھونا چاھیے اسے معذور سمجھ کر ھم اس کی خدمت میں کوئی کمی نہیں کریں گے تجھے یہ معلوم نہیں کہ ایسے انسانوں کی خدمت سے حیات ابدی مل جاتی
کرخ نامی بستی میں ان گنت قبریںان قبروں کو کوئی نہیں پہچانتا لیکن حضرت معروف کرخی کی قبر پر لوگوں کا تانتا بندھا رھتا ھے لوگ فاتحہ پڑھتے ھیں اور آپ کی بخشش کی دعا مانگتے ھیں
سبق
اس حکایت سے ثابت ھوتا ھے کہ اگر مرنے کے بعد زندہ رھنا ھے تو لوگوں کی خدمت کو اپنا شعار بنا لو.
.
.
کرو مہربانی تم اھل زمین پر.
خدا مہربان ھوگا عرش بریں پر