-|A|-
04-14-2009, 01:20 AM
خلاء میں بھی جگہ کم پڑ گئی
http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/04/090411030204_space_debris226.jpg
فروری میں ہونے والے تصادم کے بعد پیداہونے والی ٹکڑے سرخ رنگ میں دیکھے جا سکتے ہیں
اس سال دس فروری کو ایک روسی سٹلائیٹ ایک امریکی خلائی گاڑی میں جا ٹکرائی جس سے ان دونوں کے ہزاروں ٹکڑے خلا میں بکھر گئے۔ اس وقت ماہرین کے نزدیک ایسے کسی واقعے کا امکان لاکھوں نہیں بلکہ شاید اربوں میں ایک تھا۔
ماہرین کافی عرصے سے کہہ رہے تھے کہ خلا میں رش بڑھ رہا ہے اور نتیجتاً ان کے خیال میں خلائی تصادم کے امکان میں بھی اضافہ ہورہا تھا۔
حالیہ دو برسوں میں کئی واقعات نے خلاء میں غیر ضروری اشیاء یا خلائی کوڑے کی موجودگی کے مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ جنوری سن دو ہزار سات میں چین نے سیارچوں کو نشانہ بنانے والے نظام کا تجربہ کرنے کے لیے اپنی ہی ایک خلائی گاڑی کو نشانہ بنایا تھا۔
امریکی فوج کے مطابق اس تجربے میں پچیس ہزار ٹکڑے خلا میں بکھر گئے تھے جو اس مقام کے قریب موجود سیارچوں کے لیے خطرہ ہیں۔ فروری دو ہزار آٹھ میں اپنے راستے بھٹک جانے والی ایندھن سے لدی ایک خلائی گاڑی کو نشانہ بنایا۔
اس سال بارہ مارچ کو تقریباً ایک سنٹی میٹر بڑے ٹکڑے کو اپنی بڑھتا دیکھ کر بین الاقومی خلائی سٹیشن میں موجود خلا باز وہاں سے انخلا کے لیے موجود روسی کیپسول میں منتقل ہو گئے تھے۔
ایک اندازے کے مطابق زمین کے مدار میں اٹھارہ ہزار ایسے ٹکڑے ہیں جو دس سنٹی میٹر سے بڑے ہیں لیکن اس سے چھوٹے سائز کے ٹکڑوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
ستائیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیرتے ہوئے یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی کسی سیارچے کو تباہ کر سکتے ہیں یا خلا میں چہل قدمی کرتے کسی خلا باز کی جان لے سکتے ہیں۔
اس لیے جیسے خلا میں کوڑے میں اضافہ ہو رہا اسی حساب سے تصادم کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔ امریکہ کے پاس زمین کے مدار میں تیرتے ہوئے ٹکڑوں کا پتہ چلانے کا سب سے بہترین نظام ہےآ اس کی فوج کے دنیا بھر میں پچیس ایسے مراکز ہیں جہاں سے وہ خلائی کوڑے کرکٹ پر نظر رکھ سکتی ہے۔
http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/04/090411030204_space_debris226.jpg
فروری میں ہونے والے تصادم کے بعد پیداہونے والی ٹکڑے سرخ رنگ میں دیکھے جا سکتے ہیں
اس سال دس فروری کو ایک روسی سٹلائیٹ ایک امریکی خلائی گاڑی میں جا ٹکرائی جس سے ان دونوں کے ہزاروں ٹکڑے خلا میں بکھر گئے۔ اس وقت ماہرین کے نزدیک ایسے کسی واقعے کا امکان لاکھوں نہیں بلکہ شاید اربوں میں ایک تھا۔
ماہرین کافی عرصے سے کہہ رہے تھے کہ خلا میں رش بڑھ رہا ہے اور نتیجتاً ان کے خیال میں خلائی تصادم کے امکان میں بھی اضافہ ہورہا تھا۔
حالیہ دو برسوں میں کئی واقعات نے خلاء میں غیر ضروری اشیاء یا خلائی کوڑے کی موجودگی کے مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ جنوری سن دو ہزار سات میں چین نے سیارچوں کو نشانہ بنانے والے نظام کا تجربہ کرنے کے لیے اپنی ہی ایک خلائی گاڑی کو نشانہ بنایا تھا۔
امریکی فوج کے مطابق اس تجربے میں پچیس ہزار ٹکڑے خلا میں بکھر گئے تھے جو اس مقام کے قریب موجود سیارچوں کے لیے خطرہ ہیں۔ فروری دو ہزار آٹھ میں اپنے راستے بھٹک جانے والی ایندھن سے لدی ایک خلائی گاڑی کو نشانہ بنایا۔
اس سال بارہ مارچ کو تقریباً ایک سنٹی میٹر بڑے ٹکڑے کو اپنی بڑھتا دیکھ کر بین الاقومی خلائی سٹیشن میں موجود خلا باز وہاں سے انخلا کے لیے موجود روسی کیپسول میں منتقل ہو گئے تھے۔
ایک اندازے کے مطابق زمین کے مدار میں اٹھارہ ہزار ایسے ٹکڑے ہیں جو دس سنٹی میٹر سے بڑے ہیں لیکن اس سے چھوٹے سائز کے ٹکڑوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
ستائیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیرتے ہوئے یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی کسی سیارچے کو تباہ کر سکتے ہیں یا خلا میں چہل قدمی کرتے کسی خلا باز کی جان لے سکتے ہیں۔
اس لیے جیسے خلا میں کوڑے میں اضافہ ہو رہا اسی حساب سے تصادم کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔ امریکہ کے پاس زمین کے مدار میں تیرتے ہوئے ٹکڑوں کا پتہ چلانے کا سب سے بہترین نظام ہےآ اس کی فوج کے دنیا بھر میں پچیس ایسے مراکز ہیں جہاں سے وہ خلائی کوڑے کرکٹ پر نظر رکھ سکتی ہے۔