karwanpak
05-10-2014, 02:44 PM
عالمی ادارہ صحت نے پاکستان سے سفر کرنے والوں پر لازمی پولیو ویکسی نیشن کی پابندی عائد کی ہے۔ یہ موذی مرض جس میں انسان ساری زندگی کے لئے اپاہج ہو جاتا ہے ، اب صرف دنیا کے تین ملکوں میں وبا کے طور پر موجود ہے۔ ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس بیماری کے پھیلاﺅ کو روکنے کا اب یہ واحد طریقہ ہے۔
پاکستان میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم گزشتہ کئی برس سے سخت مشکلات کا شکار رہی ہے۔ طالبان اور اس سے متعلق لوگوں نے اس مہم کو غیر اسلامی اور مسلمانوں کے خلاف اہل مغرب کی سازش قرار دیا ہے۔ یہ معاملہ صرف پروپیگنڈے کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ پولیو کے قطرے پلانے والی محکمہ صحت کی ٹیموں اور ان کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکاروں پر دہشت گرد حملے بھی معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان خطرات کی وجہ سے قبائلی علاقوں کے علاوہ کراچی میں بھی پولیو کے قطرے پلانے کی مہم مشکلات اور دشواریوں کا شکار رہی ہے۔
پاکستان میں پولیو مہم میں حصہ لینے والے 59 اہلکاروں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ ان میں محکمہ صحت کے عملہ کے علاوہ ان کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ بچپن میں پولیو ویکسین کے قطرے پلا دینے سے کوئی بچہ ہمیشہ کے لئے اس مرض سے نجات پا لیتا ہے۔ لیکن ملک میں حکومت اور عوام کے خلاف برسر پیکار سرکش عناصر نے عوامی فلاح کے اس اہم کام کو بھی سیاست کا حصہ بنا لیا ہے۔ تسلسل سے پولیو مہم میں شامل اہلکاروں پر حملے کئے جاتے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کے علاوہ وفاقی حکومت بھی بار بار اعلان کرنے کے باوجود اس مہم کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
عالمی ادارہ صحت who کی تازہ ترین وارننگ کا پس منظر یہ ہے کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں سال رواں کے دوران پولیو کے کیسز میں 6 سو فیصد اضافہ ہؤا ہے۔ 2013ء میں پاکستان میں پولیو کے آٹھ مریض سامنے آئے تھے جبکہ سال رواں کے دوران صرف پہلے چار ماہ کی مدت میں ہی یہ تعداد 56 کیسز تک پہنچ چکی ہے۔ اس تشویشناک اضافہ پر عالمی ادارہ صحت کے جنیوا میں منعقد ہونے والے اجلاس میں غور کیا گیا۔ اس اجلاس میں طے کیا گیا ہے کہ اس موذی مرض کو دنیا کے باقی ملکوں میں پھیلنے سے روکنے کے لئے پاکستان سے باشندوں پر سفری پابندی عائد کرنا ضروری ہے۔ اس فیصلہ کے مطابق پاکستانی شہریوں کو سفر سے کم از کم چار ہفتے قبل پولیو ویکسین کے قطرے پینا ہوں گے اور ان کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل کرنا پڑے گا۔ البتہ ایمرجنسی میں یہ چھوٹ دی جائے گی کہ کوئی مسافر روانہ ہونے سے فوری پہلے پولیو کے قطرے پی لے۔ البتہ اس حوالے سے متعلقہ حکام کو میڈیکل سرٹیفکیٹ دکھانا ضروری ہو گا۔
پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا کے بعد تیسرا ملک ہے جہاں اب تک پولیو کی بیماری پائی جاتی ہے بلکہ اب اس میں خطرناک اضافہ ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد اس مرض کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ دنیا کے باقی 200 کے لگ بھگ ملکوں میں بھی بتدریج اس مرض کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ ان میں ایسے ممالک بھی شامل ہیں جو معاشی رتبے اور صحت کی سہولتوں کے اعتبار سے پاکستان سے بھی پیچھے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں میں مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے پولیو کے خاتمہ کی مہم کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی پابندیوں کے فیصلے سے قبل بھارت پاکستانی مسافروں پر پہلے ہی یہ پابندی عائد کر چکا ہے۔ بھارت میں اس مرض کا خاتمہ کیا جا چکا ہے اس لئے وہ پاکستانی مسافروں کو پولیو ویکسینیشن کی تصدیق کے بغیر اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ سعودی عرب نے اگرچہ اس قسم کی پابندی عائد نہیں کی ہے لیکن عمرہ اور حج پر پہنچنے والے پاکستانی زائرین کو طیارے سے اترنے کے فوراً بعد پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔ جو مسافر ایسا کرنے سے انکار کرے اسے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس کے باوجود پاکستانی حکام نے اس مرض کے خلاف مہم کو زیادہ گرمجوشی سے مستحکم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
عالمی ادارہ صحت کے اعلان کے بعد پاکستان کی وزارت صحت نے ایک اجلاس طلب کیا ہے جس میں اس نئی صورتحال پر غور کیا جائے گا۔ اس سے قبل اگرچہ پولیو مہم کے بارے میں متعدد سیاسی بیانات سامنے آئے ہیں اور طالبان کے ساتھ مذاکرات میں بھی اس سوال کو ایجنڈے میں شامل کیا گیا ہے۔ لیکن نہ تو حکومت پولیو ٹیموں کو مناسب تحفظ فراہم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے ، نہ ہی عوام کو اس مہم اور دوا کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا کے بارے میں تیار کر سکی ہے۔ حتیٰ کہ طالبان کے ساتھ روابط کے بعد اگرچہ حکومت نے کئی درجن طالبان کو رہا کیا ہے لیکن اس کے نمائندے انتہا پسند گروہ سے پولیو مہم کے خلاف جنگجوئی بند کرنے کا وعدہ بھی نہیں لے سکے۔
پولیو مہم کو کامیاب بنانے کے لئے طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق تحریری فتویٰ بھی جاری کر چکے ہیں۔ چند ماہ قبل اس فتویٰ میں کہا گیا تھا کہ یہ ویکسین حلال ہے اور اس کا استعمال غیر اسلامی نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے خاص طور سے خیبر پختونخوا میں اس مہم کو کامیاب بنانے کے لئے خود اقدام کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم یہ کوشش بھی فوٹو سیشن تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اس سے قبل سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی پولیو مہم کو کامیاب بنانے کے لئے مسلسل وعدے کئے تھے۔ حتیٰ کہ اپنی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری کو اس مہم کا سربراہ بھی مقرر کیا تھا۔ لیکن یہ ساری کوششیں بارآور نہیں ہوئیں۔ سیاستدان مرض کے خاتمے کی بجائے خود اپنی شہرت اور پبلسٹی کے لئے ضرور پولیو مہم کو استعمال کرتے رہے ہیں
پاکستان میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم گزشتہ کئی برس سے سخت مشکلات کا شکار رہی ہے۔ طالبان اور اس سے متعلق لوگوں نے اس مہم کو غیر اسلامی اور مسلمانوں کے خلاف اہل مغرب کی سازش قرار دیا ہے۔ یہ معاملہ صرف پروپیگنڈے کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ پولیو کے قطرے پلانے والی محکمہ صحت کی ٹیموں اور ان کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکاروں پر دہشت گرد حملے بھی معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان خطرات کی وجہ سے قبائلی علاقوں کے علاوہ کراچی میں بھی پولیو کے قطرے پلانے کی مہم مشکلات اور دشواریوں کا شکار رہی ہے۔
پاکستان میں پولیو مہم میں حصہ لینے والے 59 اہلکاروں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ ان میں محکمہ صحت کے عملہ کے علاوہ ان کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ بچپن میں پولیو ویکسین کے قطرے پلا دینے سے کوئی بچہ ہمیشہ کے لئے اس مرض سے نجات پا لیتا ہے۔ لیکن ملک میں حکومت اور عوام کے خلاف برسر پیکار سرکش عناصر نے عوامی فلاح کے اس اہم کام کو بھی سیاست کا حصہ بنا لیا ہے۔ تسلسل سے پولیو مہم میں شامل اہلکاروں پر حملے کئے جاتے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کے علاوہ وفاقی حکومت بھی بار بار اعلان کرنے کے باوجود اس مہم کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
عالمی ادارہ صحت who کی تازہ ترین وارننگ کا پس منظر یہ ہے کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں سال رواں کے دوران پولیو کے کیسز میں 6 سو فیصد اضافہ ہؤا ہے۔ 2013ء میں پاکستان میں پولیو کے آٹھ مریض سامنے آئے تھے جبکہ سال رواں کے دوران صرف پہلے چار ماہ کی مدت میں ہی یہ تعداد 56 کیسز تک پہنچ چکی ہے۔ اس تشویشناک اضافہ پر عالمی ادارہ صحت کے جنیوا میں منعقد ہونے والے اجلاس میں غور کیا گیا۔ اس اجلاس میں طے کیا گیا ہے کہ اس موذی مرض کو دنیا کے باقی ملکوں میں پھیلنے سے روکنے کے لئے پاکستان سے باشندوں پر سفری پابندی عائد کرنا ضروری ہے۔ اس فیصلہ کے مطابق پاکستانی شہریوں کو سفر سے کم از کم چار ہفتے قبل پولیو ویکسین کے قطرے پینا ہوں گے اور ان کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل کرنا پڑے گا۔ البتہ ایمرجنسی میں یہ چھوٹ دی جائے گی کہ کوئی مسافر روانہ ہونے سے فوری پہلے پولیو کے قطرے پی لے۔ البتہ اس حوالے سے متعلقہ حکام کو میڈیکل سرٹیفکیٹ دکھانا ضروری ہو گا۔
پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا کے بعد تیسرا ملک ہے جہاں اب تک پولیو کی بیماری پائی جاتی ہے بلکہ اب اس میں خطرناک اضافہ ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد اس مرض کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ دنیا کے باقی 200 کے لگ بھگ ملکوں میں بھی بتدریج اس مرض کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ ان میں ایسے ممالک بھی شامل ہیں جو معاشی رتبے اور صحت کی سہولتوں کے اعتبار سے پاکستان سے بھی پیچھے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں میں مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے پولیو کے خاتمہ کی مہم کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی پابندیوں کے فیصلے سے قبل بھارت پاکستانی مسافروں پر پہلے ہی یہ پابندی عائد کر چکا ہے۔ بھارت میں اس مرض کا خاتمہ کیا جا چکا ہے اس لئے وہ پاکستانی مسافروں کو پولیو ویکسینیشن کی تصدیق کے بغیر اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ سعودی عرب نے اگرچہ اس قسم کی پابندی عائد نہیں کی ہے لیکن عمرہ اور حج پر پہنچنے والے پاکستانی زائرین کو طیارے سے اترنے کے فوراً بعد پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔ جو مسافر ایسا کرنے سے انکار کرے اسے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس کے باوجود پاکستانی حکام نے اس مرض کے خلاف مہم کو زیادہ گرمجوشی سے مستحکم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
عالمی ادارہ صحت کے اعلان کے بعد پاکستان کی وزارت صحت نے ایک اجلاس طلب کیا ہے جس میں اس نئی صورتحال پر غور کیا جائے گا۔ اس سے قبل اگرچہ پولیو مہم کے بارے میں متعدد سیاسی بیانات سامنے آئے ہیں اور طالبان کے ساتھ مذاکرات میں بھی اس سوال کو ایجنڈے میں شامل کیا گیا ہے۔ لیکن نہ تو حکومت پولیو ٹیموں کو مناسب تحفظ فراہم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے ، نہ ہی عوام کو اس مہم اور دوا کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا کے بارے میں تیار کر سکی ہے۔ حتیٰ کہ طالبان کے ساتھ روابط کے بعد اگرچہ حکومت نے کئی درجن طالبان کو رہا کیا ہے لیکن اس کے نمائندے انتہا پسند گروہ سے پولیو مہم کے خلاف جنگجوئی بند کرنے کا وعدہ بھی نہیں لے سکے۔
پولیو مہم کو کامیاب بنانے کے لئے طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق تحریری فتویٰ بھی جاری کر چکے ہیں۔ چند ماہ قبل اس فتویٰ میں کہا گیا تھا کہ یہ ویکسین حلال ہے اور اس کا استعمال غیر اسلامی نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے خاص طور سے خیبر پختونخوا میں اس مہم کو کامیاب بنانے کے لئے خود اقدام کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم یہ کوشش بھی فوٹو سیشن تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اس سے قبل سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی پولیو مہم کو کامیاب بنانے کے لئے مسلسل وعدے کئے تھے۔ حتیٰ کہ اپنی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری کو اس مہم کا سربراہ بھی مقرر کیا تھا۔ لیکن یہ ساری کوششیں بارآور نہیں ہوئیں۔ سیاستدان مرض کے خاتمے کی بجائے خود اپنی شہرت اور پبلسٹی کے لئے ضرور پولیو مہم کو استعمال کرتے رہے ہیں