PDA

View Full Version : یہ بد نصیبی ہی تو تھی


Rania
04-29-2014, 03:18 PM
بے زمینی نسل کشی ہے

یہ بد نصیبی ہی تو تھی کہ وہ ایسے گھر میں پیدا ہو گئی تھی جس کی بنیادیں زمین کے بجائے ہواؤں میں تھیں ، شروع شروع میں تو اُسے ایسا لگا تھا جیسے سب ٹھیک ہے ، مگر کچھ ہی دنوں میں اُس کا گھر ہواؤں میں ڈولنے لگا اور اس سے پہلے کے سب ادڑھاڈھم زمین پہ آ گرتا، وہ گھر سے نکل کر کھلے آسماں تلے آ کر بیٹھ گئی اور اب۔ ۔ جیسے بے زمینی کا رونا اُس کا مقدر بن گیا تھا۔

تیس سال، چھوٹا عرصہ نہیں ہوتا ،ایک نسل جوان ہو جاتی ہے ، سو ہو گئی اور ایسی ہوئی جیسی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ وہ حیران نگاہوں سے اپنے بچوں کو دیکھتی اور اندر ہی اندر سوچتی۔ ۔ ۔ ’ہم بنا ماں کے پلے ہوئے بچے ہیں ، اسی لیے تو آدھے پکے اور آدھے کچے ہیں۔ ہماری کھاد میں زبان، تہذیب اور تاریخ کے بیچ نمو نہ پا سکے اسی لیے تو ہمارے پھولوں میں خوشبو نہیں۔ ہم نے وقت کے ساتھ موسموں کی سختیاں نہیں سہیں اسی لیے تو ہمارے قد ٹھٹھر گئے ہیں۔ اب ہمیں زمین ہی کی ممتا سے ایک آس ہے شاید کبھی اپنے دامن میں سمیٹ لے ، شاید ہمارے پھولوں کا بھی رنگ قوس و قزح کی طرح نکھر جائے۔ ‘

پچھلے سال جب وہ پاکستان گئی تو ساری پُرانی کتابیں سمیٹ کر لے آئی۔ ہر کتاب برسوں کی گرد سمیٹی، دیمک کی خوراک بن کر محض جال بن گئی تھی اور پھر وہ اُن جالوں سے ماضی کے جھروکوں میں جھانک جھانک کر وقت کو ڈھونڈنے لگی۔ وقت تو عفریت کا روپ دھار چکا تھا،جس کی زبان شاخدار اور دانت خون آلود تھے۔ جس کا پھولا ہوا پیٹ تاریخ کے سارے گھناؤنے راز سمیٹے بے ہنگم انداز میں ،آنے والی نسل انسانی کو پھر سے ڈکارنے تیار بیٹھا تھا۔ کتابوں کے ہر صفحے پر لفظ روتے تھے ، دیومالائی کہانیاں ہو، یا آسمانی صحیفے ،پیغمبروں کے قصے ہو یا زماں و مکاں کے جھگڑے ہر لفظ آنسووں کی شکل بن بن کر بہتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ اُن آنسووں کو ایک لڑی میں پرو نے لگی مگر جو مالا بنی وہ تاریخ کے ایک ہی لفظ کو بار بار ہراتی تھی۔ ۔ بے زمینی نسل کُشی ہے۔

مگر وہ تو اپنی نسل کُشی نہیں چاہتی تھی۔ ۔ تو پھر وہ ایک دن اپنے پھولوں کو سمیٹ کر آئنے کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ اور جب اُس نے بجائے خود کے ، محض ایک عکس کو دیکھا تو اُسے احساس ہوا جیسے بے زمینی نے اُسے بے وجود بھی کر دیا ہے۔ وہ اُن ہی ہواؤں میں تحلیل ہو گئی تھی جن سے کبھی اُس نے خود کو بچا نے کے لیے ہجرت کی تھی۔ ۔ ۔ تو کیا پھر ایک نئی ہجرت ؟ اُس نے سوچا۔ مگر نہیں۔ ایسا ہوتا تو آج میرا وجود ہوتا۔ ۔ ۔ پھر وقت کے دامن سے میرا ساتھ کب چھوٹا اور کیوں ؟ وہ خود کو ٹٹولنے لگی۔ ۔ ۔ میں نے دوران پرواز وقت کی اُس آہٹ کو نہ سنا جو صدیوں کی تاریخ خود میں سمیٹے ہوئے بادلوں کی طرح مرے اردگرد اُڑ رہے تھے۔

اور پھر اُسے یاد آیا اپنا پہلا سفر۔ ۔ ۔ وہ کہنے کو بائیس گھنٹے کا ہوائی سفر تھا مگر جس نے اُسے تیسری دُنیا سے پہلی دنیا میں پہنچا دیا تھا۔ ۔ ۔ وہ آنکھیں پھاڑے حیران نگاہوں سے پچھلے دو سو سال کی سائنسی بنیادوں پہ کھڑے انسانی معاشرے کو ، دو ہزار سال پُرانے مذہبی بنیادوں کے ڈھانچے پہ کھڑی، ناپ رہی تھی۔ اُسے نہیں پتہ تھا کہ وقت درجہ بدرجہ پہلی دنیا میں پہنچا ہے اور وہ، پہلے درجے پہ سمٹی ہوئی تیسری دنیا سے ، تاریخ کے ارتقاء کو جاننے اور اُس کا حصہ بنے بغیر،گھنٹوں کے ہوائی سفر کے بعد یہاں نمودار ہو گئی تھی۔ وہ تو یہ بھی بھول گئی تھی کہ اُس کی ہجرت ہی نے اُسے بے زمین کے ساتھ ساتھ بے و زن بھی کر دیا تھا، تبھی تو وہ ہواؤں کے ہاتھوں جھولا بن کر پہلی دنیا میں اُڑتی ہوئی چلی آئی تھی۔ اور پھر۔ ۔ ۔ وقت کی تبدیلیوں کو تاریخ کے آئینے میں دیکھنے کے بجائے محض اپنی خود اطمینانی کے خاطر اپنے پھولوں کو وہ لوریاں سُنانے لگی، جن کی دھُنوں میں اپنی چھوڑی ہوئی دُنیا کے سُر تو تھے مگر آنے والے بدلتے وقت کے ساز نہ تھے۔ اُس کے پھول اپنی بے زمین ماں کا نوحہ سر پہ اُٹھائے ، ایسی دو کشتیوں میں سوار مسافر نکلے ، جو بیچ بھنور میں پھنسے ،دو ہزار سال کی چاہ میں دو سو سال کے کنارے تک نہ پہنچ پائے۔ اور آج جب وہ بے وزن ،بے وجود ہو کر آئینے میں خود کو ڈھونڈنے لگی تو اُس کے اپنے عکس نے اُس سے دھیمے سے کہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’بے زمینی نسل کشی ہے جو تم زمین کو جغرافیے سے بانٹ دو۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ تاریخ سے نہیں ‘ اور پھر وہ ا پنے کھوئے ہوئے وجود سے مل کر ، خوشی کے مارے رونے لگی۔

pakeeza
04-29-2014, 04:47 PM
Goooooood ShaarinG

(‘“*JiĢäR*”’)
04-30-2014, 10:29 AM
Very Nice

PRINCE SHAAN
04-30-2014, 04:29 PM
Very nice sharing..................

Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.