Rania
04-11-2014, 12:33 PM
کہیں سنگ میں بھی ہے روشنی کہیں آگ میں بھی دُھواں نہیں
یہ عجیب شہرِ طلسم ہے! کہیں آدمی کا نشاں نہیں
نہ ہی اِس زمیں کے نشیب میں نہ ہی آسماں کے فراز پر
کٹی عمر اُس کو تلاشتے ، جو کہیں نہیں پر کہاں نہیں؟
یہ جو زندگانی کا کھیل ہے، غم و انبساط کا میل ہے
اُسے قدر کیا ہو بہار کی! کبھی دیکھیں جس نے خزاں نہیں
وہ جو کٹ گرے پہ نہ جُھک سکے’ جو نہ مقتلوں سے بھی رُک سکے
کوئ ایسا سر نہیں دوش پر، کسی منہ میں ایسی زباں نہیں
جو تھے اشک میں نے وہ پی لیے، لبِ خشک و سوختہ سی لیے
مرے زخم پھر بھی عیاں رہے، مرا درد پھر بھی نہاں نہیں
نہیں اس کو عشق سے واسطہ وہ ہے اور ہی کوئی راستہ
اگر اِس میں دِل کا لہو نہیں اگر اِس میں جاں کا زیاں نہیں
امجد اسلام امجد
یہ عجیب شہرِ طلسم ہے! کہیں آدمی کا نشاں نہیں
نہ ہی اِس زمیں کے نشیب میں نہ ہی آسماں کے فراز پر
کٹی عمر اُس کو تلاشتے ، جو کہیں نہیں پر کہاں نہیں؟
یہ جو زندگانی کا کھیل ہے، غم و انبساط کا میل ہے
اُسے قدر کیا ہو بہار کی! کبھی دیکھیں جس نے خزاں نہیں
وہ جو کٹ گرے پہ نہ جُھک سکے’ جو نہ مقتلوں سے بھی رُک سکے
کوئ ایسا سر نہیں دوش پر، کسی منہ میں ایسی زباں نہیں
جو تھے اشک میں نے وہ پی لیے، لبِ خشک و سوختہ سی لیے
مرے زخم پھر بھی عیاں رہے، مرا درد پھر بھی نہاں نہیں
نہیں اس کو عشق سے واسطہ وہ ہے اور ہی کوئی راستہ
اگر اِس میں دِل کا لہو نہیں اگر اِس میں جاں کا زیاں نہیں
امجد اسلام امجد