PDA

View Full Version : دُنیا کے 20دانشوروں میں سے پہلے 10مسلمان


Rania
03-09-2014, 12:30 AM
دُنیا کے 20دانشوروں میں سے پہلے 10مسلمان
عارف جمیل

امریکی جریدے فارن پالیسی اور انگلستان کے پروسپیکٹ میگزین کی جانب سے دُنیا بھر سے صف ِاول کے جن20عوامی دانشوروں کے حوالے سے سروے رپورٹ شائع ہوئی اُس میں پہلے 10دانشور مسلمان ہیں۔لہذا اِس اعزاز کی اہمیت کو مد ِنظر رکھتے ہوئے مختصر انداز میں اُن دانشوروں کے خیالات و خدمات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے جن سے اُنکی بین الااقوامی اہمیت اُجاگر ہوتی ہے۔

(1) فتح اللہ گولن ترکی) پہلے نمبر پر آنے والے وہ معروف مبلغ، مصنف و لیکچرارہیں جنکی تعریف ایک ایسے اسلامی سکالر کی حیثیت میں کی جاسکتی ہے جنہیں ترکی اور یورپ کے مسلمانوں کے علاوہ دوسری الہامی کُتب کے مذاہب کے عوام میں بھی ا نتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے۔ اُنکی کُتب و بیانات رواداری اورامن بقائے باہمی کے اُن اصولوں کی وضاحت کرتے ہیں جو اسلامی روایات کے مطابق جدید تعلیم حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں کو حاصل ہو سکتے ہیں۔ اُنکی تعلیمات کا دائرہ اسلام پر زندگی گزارنے کے اصول واضح کرنا ہے۔ 60سے زائد کتابیں سیاسی،سماجی ودینی موضوعات پر تحریر کی ہیں جن میں سیرت ِنبویؐ پر’’نور ِسرمدی فخر ِانسانیت‘‘بھی ہے۔ 1999 ء سے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر کے امریکہ میں رہ رہے ہیں۔

(2) محمدیونس بنگلہ دیش) ان کی تعلیمی قابلیت پی ایچ ڈی ہے۔ 1976ء میں بنگلہ دیش میں" غربت مٹائو" مہم کا آغاز کرتے ہوئے ایک گائوں کی 42عورتوں کو اپنی ذاتی آمدن میں سے 27ڈالر قرضے کی مد میں دیئے تاکہ ایک طرف عورتیں اپنا ذاتی کاروبار شروع کر سکیں اور دوسرا منا فع کے ساتھ ساتھ قرضے کی رقم ادا کرنے کی بھی استعداد پیدا کریں۔محمد یونس کو نہ صرف اس مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی بلکہ اُنھوں نے بنگلہ دیش کے غریب لوگوں کیلئے قرضے کی آسان فراہمی کیلئے گرامین بنک(دیہاتی بنک) ہی قائم کر دیا۔چھوٹے قرضوں کی اس معاشی اسکیم نے نہ صر ف غریبوں کیلئے بہترین روزگار مہیا کیا بلکہ ملکی بر آمدات پر مُثبت اثرات مرتب ہوئے۔ سیاست میں بھی حصہ لیا لیکن پھر الگ ہو گئے۔5کُتب کے مصنف بھی ہیں۔

(3) یوسف القرضاوی مصر و قطر) حافظ ِقرآن ہیں اور1973ء میں اسلامی فکر میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی ۔پھر اس دوران مصری مذہبی امور کے شعبے اور پھر قطر کے تدریسی مکاتب سے سے وابستہ رہے۔ اُخوان المسلمون سے وابستگی کی وجہ سے 1949ء میں جیل جا چکے ہیں۔ وہ دینی ودُنیاوی معاملات میں فتوے دینے کو اہمیت دیتے ہیں۔لہذا آج اُنھیں عرب دُنیا میں غیر معمولی شہرت حاصل ہے۔ ٹی وی کے پروگرام میں جو ابات دینے کی وجہ سے اُنھیں معتدل قدامت پسند قرار دیا جاتا ہے۔ جو دور ِحاضر کے مطابق اسلامی اصولوں پر زندگی گزارنے کیلئے رہنمائی کرتے ہیں ۔ پہلے 10میں سے تیسرے نمبر پر ہیں۔

(4) ا ورھان پاموک ترکی) ترکی کے مشہور ناول نگار ،فلمی ادیب اور سیاسی دانشمند ہیں جنکو یہ بیان دینے پر کہ جنگ ِعظیم اول کے دوران دورِعثمانیہ میں لاکھوں آرمینیوں کی نسل کشی کی گئی اور ہزاروں افراد کو قتل کیا گیا تھا2005ء میں ترکی عدالت کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ الزام یہ تھا کہ اُنھوں نے ترک شناخت کی توہین کی ہے۔ 2006ء اکتوبر میں اُنھیں سویڈیش اکیڈمی کی طرف سے لٹریچر میں نوبل انعام دے دیا گیا۔صحافت میں گریجویشن کی تھی ۔لیکن صحافت کے شعبے سے وابستہ نہ ہوئے اور ناول نگار بن گئے۔ آج تک 46 زبانوں میں اُنکے مختلف ناولوں کے تراجم ہو چکے ہیں۔

(5) اعتزاز احسن: (پاکستان) پاکستان کے مایہ نازبیرسٹر ہونے کے ساتھ انسانی حقوق کے علمبردار،مصنف اور سیاست دان بھی ہیں۔1988 ء اور 1993ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں اہم وزارتوں پر رہے۔وہ سپریم کورٹ کے وکیل ہیں۔ لہذا اُنھوں نے 2وزرائے اعظم بے نظیر اور نوازشریف کی طرف سے مقدمات کی پیروی بھی کی۔مختلف سالوں میں سینٹ و قومی اسمبلی کے رُکن رہے(آجکل بھی پی پی پی کے سینٹر ہیں)۔ مارچ 2007ء میں صدر جنرل مشرف کی طرف سے افتخار محمد چوہدری کوچیف جسٹس سپریم کورٹ کے عہدے سے برطرف کرنے پر ــ" ججزبحالی تحریک" میں اہم کردار ادا کیا ۔پاکستان سپریم کورٹ بار ایسویشن کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ ایک کتاب "دی انڈس ساگا اینڈ میکنگ آٖ ف پاکستان " لکھ چکے ہیں او ر کتاب "ڈیوائیڈڈبائی ڈیموکریسی" میں لارڈ میگھنڈ ڈیسائی کے ساتھ شریک مصنف ہیں۔ترتیب میں 5واں نمبر ہے۔

(6) عمر و محمد حلمی خالد مصر) ان کاخاندان کچھ خاص مذہبی نہیں تھا۔لیکن عمرو خالد نے زندگی کو بامعنی بنانے کی جدوجہد میںمذہب سے تعلق جوڑ لیا۔ 1997ء میں اُنھوں نے اپنے حلقہ ِاحباب کی دعوت پر مسجد میں بیان کیا تو اُنھیں پذیر ائی حاصل ہوئی ۔2001ء میںاسلامک سٹیڈیزمیںڈِپلومہ حاصل کیا اور مئی2010ء میں یونیورسٹی آف ویلز لیمپ پیٹر سے "اے"گریڈ میں پی ایچ ڈی بھی کر لی۔اس دوران اُنھوں نے ٹی وی پروگرامز کے ذریعے دینی لیکچرز دینے کا آغاز کر دیا۔اُن کے لیکچرز میں اسلامی اصولوں سے زیادہ اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ جدید زندگی کی رعنائیوں میں روحانیت کا پہلو تلاش کرتے رہو۔اُن کا پیغام ہے کہ مذہبی برداشت اورمغرب سے بات چیت جدید دُنیا میں اہم پہلو سمجھے جائیں۔

(7) عبدالکریم سوروش ایران) انہوں نے فارمیسی میںڈگری حاصل کرنے کے بعد لندن یونیورسٹی سے کیمسٹری اور جیلسیا کالج لندن سے تاریخ اور فلسفہ کے علوم میںتعلیم حاصل کی۔آیت اللہ خمینی نے اُنھیں" ثقافتی انقلاب" کمیٹی کی اُس 7رُکنی ٹیم میں شامل کیا جسکا مقصدتعلیمی نصاب ترتیب دینا تھا۔اس دوران اُنھوں نے تعلیمی ادارے بھی قائم کیے۔اصلاح پسند پروفیسر سورش کو اسلام ،تاریخ اور فلسفہ بلکہ خصوصی طور پر رومی فلسفہ کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ اُنکی کُتب و لیکچرز اُنکے نظریات کو واضح کرتے ہیں اور اس وجہ بین ا لاقوامی یونیورسٹیوںمیں بھی اُنھیں اہمیت دی جاتی ہے۔

(8) طارق رمضان: (سوئٹزر لینڈ) اخوان المسلمون کے بانی حسن البناء کے نواسے ہیں۔فلسفہ اور فرنچ ادب میں ماسٹر اور جنیوا یونیورسٹی سے عربی و اسلامک سٹیڈیز میں پی ایچ ڈی کی۔ مذہبی خاندانی پہچان نے دینی رغبت کو مزید اُجاگر کیا تو قاہرہ یونیورسٹی ،مصر میں جاکر اسلامی فقہ کی تعلیم حاصل کی۔2003ء تک سوئٹزرلینڈ کی یونیورسٹی سے تعلق رہا اور پھر 2005ء سے آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسلامک سٹیڈیز کے پروفیسر ہیں۔

(9) محمود ممدانی یوگنڈا) 9ویں نمبر پر آنے والے یوگنڈا کے وہ معروف انسان شناس دانشور ہیں جن کو بین الاقوامی سطح پر افریقہ کی تاریخ،سیاست اورمعاشرے کا مبصر سمجھا جاتا ہے۔ بھارتی نژاد محمود ممدانی نے یوگنڈا میں پرورش پائی اور تعلیم حاصل کی ۔ سیا سیات میںہارورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔ یوگنڈاکی جامعہ مکیر یری کمپالا میں ملازمت کے دوران اُنھیں اُس وقت کے صدر عیدی امین نے" نسلی معاملے" پر برطرف کر دیا۔جس کے بعد وہ امریکہ ،انگلستان اور افریقی ممالک میں ایک تو اپنی تدریسی ذمہ داریاں نبھاتے رہے،اور واضح کرنے کی کوشش کی کہ موجودہ دور میں جو اسلام سے دہشت گردی کو منسلک کیا جا رہا ہے یہ اصل میں اُن باغی طاقتوں کا انتشار ہے جو" کولڈ وار" کے آخری دنوں میں اُن بڑے ممالک کی پُشت پناہی سے وجود میں آیاہے جو کولڈ وار کے اہم کردار رہے ہیں۔ بہت سی کُتب کے مصنف بھی ہیں۔

(10) شیریں عبادی ایران) پہلی ایرانی خاتون ہیں جنہیں 2003ء میں "جمہوریت و انسانی حقوق "کیلئے خدمات انجام دینے پر نوبل انعام سے نوازا گیا۔تہران یونیورسٹی فیکلٹی آف لاء سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور کچھ تجربے کے بعد جج بن گئیں۔ساتھ میں قانون میں ڈاکٹریٹ بھی کر لیا۔1974ء میں وہ پہلی ایرانی خاتون تھیں جنہیں تہران سٹی کورٹ بنچ 24کا صدر کا اعلیٰ ترین عہدہ دیا گیا۔ وہ اسلامی انقلاب کی حامی رہی ہیں اور قوم پرست ہیں۔وہ ایک مصنفہ بھی ہیں

Princess Urwa
03-09-2014, 04:29 PM
very nice sharing

nehastar1
03-10-2014, 08:23 AM
jazak Allah khayrn

(‘“*JiĢäR*”’)
03-10-2014, 10:39 AM
Very Nice

karwanpak
03-15-2014, 04:29 PM
Ache sharing hay. Bohat ache.:;hugm:

Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.