View Full Version : Mirza Ghalib Ghazal Collestion
Shizuka
02-12-2014, 06:26 AM
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غم روزگار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے؟ شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا
ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا؟
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اسے کون دیکھ سکتا، کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
یہ مسائل تصّوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا
Shizuka
02-12-2014, 06:27 AM
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟
نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں
شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا
نگاہِ بے محابا چاہتا ہوں
تغافل ہائے تمکیں آزما کیا
فروغِ شعلۂ خس یک نفَس ہے
ہوس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا
نفس موجِ محیطِ بیخودی ہے
تغافل ہائے ساقی کا گلا کیا
دماغِ عطر پیراہن نہیں ہے
غمِ آوارگی ہائے صبا کیا
دلِ ہر قطرہ ہے سازِ "انا البحر"
ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا
محابا کیا ہے، مَیں ضامن، اِدھر دیکھ
شہیدانِ نگہ کا خوں بہا کیا
سن اے غارت گرِ جنسِ وفا، سن
شکستِ قیمتِ دل [1] کی صدا کیا
کیا کس نے جگر داری کا دعویٰ؟
شکیبِ خاطرِ عاشق بھلا کیا
یہ قاتل وعدۂ صبر آزما کیوں؟
یہ کافر فتنۂ طاقت ربا کیا؟
بلائے جاں ہے غالبؔ اس کی ہر بات
عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا!
ایک نسخے میں "قیمتِ دل" کی جگہ "شیشۂ دل" لکھا ہے۔ (حامد علی خاں)
Shizuka
02-12-2014, 06:29 AM
درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں، کہ ہم
الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا
روبرو کوئی بتِ آئینہ سیما نہ ہوا
کم نہیں نازشِ ہمنامیِ چشمِ خوباں
تیرا بیمار، برا کیا ہے؟ گر اچھا نہ ہوا
سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا
خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا
نام کا میرے ہے جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا
کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا [1]
ہر بُنِ مو سے دمِ ذکر نہ ٹپکے خونناب
حمزہ کا قِصّہ ہوا، عشق کا چرچا نہ ہوا
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا
تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا
کام کا ہے مرے وہ فتنہ کہ برپا نہ ہوا (نسخۂ حسرت، نسخۂ مہر) (جویریہ مسعود)
مزید: نسخۂ مہر اور حسرت موہانی میں یہ شعر یوں ملتا ہے:
نام کا ہے میرے وہ دکھ جو کسی کو نہ ملا
کام کا ہے مِرے وہ فتنہ کہ برپا نہ ہوا
Shizuka
02-12-2014, 06:32 AM
گر نہ "اندوہِ شبِ فرقت" بیاں ہو جائے گا
بے تکلف، داغِ مہ مُہرِ دہاں ہو جائے گا
زہرہ گر ایسا ہی شامِ ہجر میں ہوتا ہے آب
پرتوِ مہتاب سیلِ خانماں ہو جائے گا
لے تو لوں سوتے میں اس کے پاؤں کا بوسہ، مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بد گماں ہو جائے گا
دل کو ہم صرفِ وفا سمجھے تھے، کیا معلوم تھا
یعنی یہ پہلے ہی نذرِ امتحاں ہو جائے گا
سب کے دل میں ہے جگہ تیری، جو تو راضی ہوا
مجھ پہ گویا، اک زمانہ مہرباں ہو جائے گا
گر نگاہِ گرم فرماتی رہی تعلیمِ ضبط
شعلہ خس میں، جیسے خوں رگ میں، نہاں ہو جائے گا
باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر
ہر گلِ تر ایک "چشمِ خوں فشاں" ہو جائے گا
وائے گر میرا ترا انصاف محشر میں نہ ہو
اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہو جائے گا
[1] گر وہ مستِ ناز دیوے گا صلائے عرضِ حال
خارِ گُل، بہرِ دہانِ گُل زباں ہو جائے گا
فائدہ کیا؟ سوچ، آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ
دوستی ناداں کی ہے، جی کا زیاں ہو جائے گا
Shizuka
02-12-2014, 06:32 AM
درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گلا نہ ہوا
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا
کتنے شیریں ہیں تیرے لب، "کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا"
ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں [1] ہے کہ حق ادا نہ ہوا
زخم گر دب گیا، لہو نہ تھما
کام گر رک گیا، روا نہ ہوا
رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے؟
لے کے دل، "دلستاں" روانہ ہوا
کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا!
Shizuka
02-12-2014, 06:34 AM
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیِ جا کا
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا
یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخِ مکتوب!
مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا
حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے یہی
دوامِ کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا
ملی نہ وسعتِ جولانِ یک جنوں ہم کو [1]
عدم کو لے گئے دل میں غبارِ صحرا کا
مرا شمول ہر اک دل کے پیچ و تاب میں ہے
میں مدّعا ہوں تپش نامۂ تمنّا کا
غمِ فراق میں تکلیفِ سیرِ باغ نہ دو
مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے [2] بے جا کا
ہنوز محرمیِ حسن کو ترستا ہوں
کرے ہے ہر بُنِ مو کام چشمِ بینا کا
دل اس کو، پہلے ہی ناز و ادا سے، دے بیٹھے
ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا
نہ کہہ کہ گریہ بہ مقدارِ حسرتِ دل ہے
مری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا
فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اُس کو یاد اسدؔ
جفا میں اُس [3] کی ہے انداز کارفرما کا
Shizuka
02-12-2014, 06:35 AM
قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفَس پرور ہوا
خطِّ جامِ مے سراسر رشتۂ گوہر ہوا
اعتبارِ عشق کی خانہ خرابی دیکھنا
غیر نے کی آہ لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا
گرمیِ دولت ہوئی آتش زنِ نامِ نکو
خانۂ ماتم میں یاقوتِ نگیں اخگر [1] ہوا
نشّے میں گُم کردہ رہ آیا وہ مستِ فتنہ خو
آج رنگِ رفتہ دورِ گردشِ ساغر ہوا
درد سے در پردہ دی مژگاں سیاہاں نے شکست
ریزہ ریزہ استخواں کا پوست میں نشتر ہوا
اے بہ ضبطِ حال خو نا کردگاں [2] جوشِ جنوں
نشّۂ مے ہے اگر یک پردہ نازک تر ہوا
زُہد گر دیدن ہے گِردِ خانہ ہائے منعماں
دانۂ تسبیح سے میں مہرہ در ششدر ہوا
اس چمن میں ریشہ واری جس نے سر کھینچا اسدؔ
تر زبانِ شکرِ لطفِ ساقیِ کوثر ہوا
قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفَس پرور ہوا
خطِّ جامِ مے سراسر رشتۂ گوہر ہوا
اعتبارِ عشق کی خانہ خرابی دیکھنا
غیر نے کی آہ لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا
گرمیِ دولت ہوئی آتش زنِ نامِ نکو
خانۂ ماتم میں یاقوتِ نگیں اخگر [1] ہوا
نشّے میں گُم کردہ رہ آیا وہ مستِ فتنہ خو
آج رنگِ رفتہ دورِ گردشِ ساغر ہوا
درد سے در پردہ دی مژگاں سیاہاں نے شکست
ریزہ ریزہ استخواں کا پوست میں نشتر ہوا
اے بہ ضبطِ حال خو نا کردگاں [2] جوشِ جنوں
نشّۂ مے ہے اگر یک پردہ نازک تر ہوا
زُہد گر دیدن ہے گِردِ خانہ ہائے منعماں
دانۂ تسبیح سے میں مہرہ در ششدر ہوا
اس چمن میں ریشہ واری جس نے سر کھینچا اسدؔ
تر زبانِ شکرِ لطفِ ساقیِ کوثر ہوا
Shizuka
02-12-2014, 06:53 AM
جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا
تپشِ شوق نے ہر ذرّے پہ اک دل باندھا
اہل بینش نے بہ حیرت کدۂ شوخیِ ناز
جوہرِ آئینہ کو طوطیِ بسمل باندھا
یاس و امید نے اک عرَبدہ میداں مانگا
عجزِ ہمت نے طِلِسمِ دلِ سائل باندھا
نہ بندھے تِشنگیِ ذوق [1] کے مضموں، غالبؔ
گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا
Shizuka
02-12-2014, 06:55 AM
میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں
گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا؟
ہے ایک تیر جس میں دونوں چھِدے پڑے ہیں
وہ دن گئے کہ اپنا دل سے جگر جدا تھا
درماندگی میں غالبؔ کچھ بن پڑے تو جانوں
جب رشتہ بے گرہ تھا، ناخن گرہ کشا تھا
Shizuka
02-12-2014, 06:56 AM
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا
تنگیِ دل کا گلہ کیا؟ یہ وہ کافر دل ہے
کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا
بعد یک عمرِ وَرع بار تو دیتا بارے
کاش رِضواں ہی درِ یار کا درباں ہوتا
Shizuka
02-12-2014, 06:57 AM
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈُبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
ہُوا جب غم سے یوں بے حِس تو غم کیا سر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا
ہوئی مدت کہ غالبؔ مرگیا، پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
Shizuka
02-12-2014, 06:58 AM
یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا
یاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا
بے مے کِسے ہے طاقتِ آشوبِ آگہی
کھینچا ہے عجزِ حوصلہ نے خط ایاغ کا
بُلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
تازہ نہیں ہے نشۂ فکرِ سخن مجھے
تِریاکیِ قدیم ہوں دُودِ چراغ کا
سو بار بندِ عشق سے آزاد ہم ہوئے
پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا
بے خونِ دل ہے چشم میں موجِ نگہ غبار
یہ مے کدہ خراب ہے مے کے سراغ کا
باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل
ابرِ بہار خمکدہ کِس کے دماغ کا!
جوشِ بہار کلفتِ نظّارہ ہے اسدؔ
ہے ابر پنبہ روزنِ دیوارِ باغ کا
Shizuka
02-12-2014, 07:01 AM
وہ میری چینِ جبیں سے غمِ پنہاں سمجھا
رازِ مکتوب بہ بے ربطیِ عنواں سمجھا
یک الِف بیش نہیں صیقلِ آئینہ ہنوز
چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا
ہم نے وحشت کدۂ بزمِ جہاں میں جوں شمع
شعلۂ عشق کو اپنا سر و ساماں سمجھا
شرحِ اسبابِ گرفتاریِ خاطر مت پوچھ
اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا
بد گمانی نے نہ چاہا اسے سرگرمِ خرام
رخ پہ ہر قطرہ عرق دیدۂ حیراں سمجھا
عجز سے اپنے یہ جانا کہ وہ بد خو ہو گا
نبضِ خس سے تپشِ شعلۂ سوزاں سمجھا
سفرِ عشق میں کی ضعف نے راحت طلبی
ہر قدم سائے کو میں اپنے شبستان سمجھا
تھا گریزاں مژۂ یار سے دل تا دمِ مرگ
دفعِ پیکانِ قضا اِس قدر آساں سمجھا
دل دیا جان کے کیوں اس کو وفادار، اسدؔ
غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا
Shizuka
02-12-2014, 07:05 AM
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل، جگر تشنۂ فریاد آیا
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا
سادگی ہائے تمنا، یعنی
پھر وہ نیرنگِ نظر [1] یاد آیا
عذرِ واماندگی، اے حسرتِ دل!
نالہ کرتا تھا، جگر یاد آیا
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا
کیا ہی رضواں سے لڑائی ہو گی
گھر ترا خلد میں گر یاد آیا
آہ وہ جرأتِ فریاد کہاں
دل سے تنگ آ کے جگر یاد آیا
پھر تیرے کوچے کو جاتا ہے خیال
دلِ گم گشتہ، مگر، یاد آیا
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
(‘“*JiĢäR*”’)
02-12-2014, 09:27 AM
,,:bu: Thread Hai
Golden Tears
02-12-2014, 01:12 PM
very nice
Shizuka
02-16-2014, 02:33 PM
,,:bu: Thread Hai
thankeww ;)
Shizuka
02-16-2014, 02:35 PM
very nice
Thnxxx ;)
Copyright ©2008
Powered by vBulletin Copyright ©2000 - 2009, Jelsoft Enterprises Ltd.