imranskfuuast
10-09-2013, 10:58 AM
ایک چور ایک کھیت میں جا گھسا جس میں مختلف قطعات میں گاجر ِ مولی اور دوسری سبزیاں لگی ہوئیں تھیں ۔ چور کے پاس ایک بوری تھی ۔ اس نے اپنی پسند کی سبزیاں توڑ توڑ کر بوری میں بھر لیں ۔
لیکن یہ اس کی بد قسمتی تھی کہ وہ ابھی بوری اٹھا بھی نہ سکا تھا کہ باغ کا رکھوالا آگیا ۔
اس نے پوچھا تم کون ہو ؟
چور نے انتہائی سادگی سے جواب دیا جناب والا ! " میں ایک مسافر ہوں " ۔
رکھوالا اس کی ڈھٹائی پر اندر ہی اندر چراغ پا ہوا ۔
لیکن اس نے تحمل سے دوسرا سوال کیا ۔
" تو تم یہاں کھیت کے اندر کیا لینے آئے تھے ؟"
چور نے بھی جھوٹ بولنے کی انتہا کر دی ۔
بولا ، جناب ! میں باہر سڑک کے کنارے کنارے چلا جا رہا تھا کہ ایک خوفناک بگولہ اٹھا اور میں اس کی زد پر آگیا ۔ میں نے لاکھ ہاتھ پیر مارے ، لیکن اس کی زد سے نہ نکل سکا ۔ وہ مجھے لے اڑا اور جب اس نے مجھے زمین پر گرا دیا اور مجھے ہوش آیا تو میں نے خود کو یہاں اس کھیت میں اس جگہ دیکھا " ۔
رکھوالے کی نظریں سبزی سے بھری ہوئی بوری کا جائزہ لینے لگیں ۔
اس نے ترکاریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ،
" اور یہ سبزیاں کس نے توڑیں ؟"
چور نے جواب دیا !
" در اصل بگولے نے جب مجھے یہاں گرایا تھا تو وہ پہلے کچھ دیر تک چکر دیتا رہا اور میں چکر کھانے لگا تھا ۔ اس وقت میں نے اپنی جان بچانے کے لیے ان چھوٹے چھوٹے پودوں کا سہارا لیا تھا اور یہ جڑ سے اکھڑ اکھڑ کر میرے ہاتھوں میں آتے رہے تھے " ۔
باغ کا رکھوالا اس جھوٹے کے جھوٹ پر دل ہی دل میں عش عش کر اٹھا
اور آخر اس نے اپنا آخری سوال کر ڈالا ایک ایسا سوال جس کے بارے میں اس کا خیال یہ تھا کہ جھوٹے چور کے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہوگا ۔
اس نے چور سے کہا !
" چلو میں نے تمہاری ساری باتیں مان لیں ! لیکن یہ تو بتاؤ میری یہ سبزیاں اس بوری میں کس طرح پہنچ گئیں ؟"
چور نے بڑی سادگی اور بھولپن سے جواب دیا !
" جناب والا ! یہی بات تو میں خود سوچ رہا تھا کہ آپ تشریف لے آئے "
لیکن یہ اس کی بد قسمتی تھی کہ وہ ابھی بوری اٹھا بھی نہ سکا تھا کہ باغ کا رکھوالا آگیا ۔
اس نے پوچھا تم کون ہو ؟
چور نے انتہائی سادگی سے جواب دیا جناب والا ! " میں ایک مسافر ہوں " ۔
رکھوالا اس کی ڈھٹائی پر اندر ہی اندر چراغ پا ہوا ۔
لیکن اس نے تحمل سے دوسرا سوال کیا ۔
" تو تم یہاں کھیت کے اندر کیا لینے آئے تھے ؟"
چور نے بھی جھوٹ بولنے کی انتہا کر دی ۔
بولا ، جناب ! میں باہر سڑک کے کنارے کنارے چلا جا رہا تھا کہ ایک خوفناک بگولہ اٹھا اور میں اس کی زد پر آگیا ۔ میں نے لاکھ ہاتھ پیر مارے ، لیکن اس کی زد سے نہ نکل سکا ۔ وہ مجھے لے اڑا اور جب اس نے مجھے زمین پر گرا دیا اور مجھے ہوش آیا تو میں نے خود کو یہاں اس کھیت میں اس جگہ دیکھا " ۔
رکھوالے کی نظریں سبزی سے بھری ہوئی بوری کا جائزہ لینے لگیں ۔
اس نے ترکاریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ،
" اور یہ سبزیاں کس نے توڑیں ؟"
چور نے جواب دیا !
" در اصل بگولے نے جب مجھے یہاں گرایا تھا تو وہ پہلے کچھ دیر تک چکر دیتا رہا اور میں چکر کھانے لگا تھا ۔ اس وقت میں نے اپنی جان بچانے کے لیے ان چھوٹے چھوٹے پودوں کا سہارا لیا تھا اور یہ جڑ سے اکھڑ اکھڑ کر میرے ہاتھوں میں آتے رہے تھے " ۔
باغ کا رکھوالا اس جھوٹے کے جھوٹ پر دل ہی دل میں عش عش کر اٹھا
اور آخر اس نے اپنا آخری سوال کر ڈالا ایک ایسا سوال جس کے بارے میں اس کا خیال یہ تھا کہ جھوٹے چور کے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہوگا ۔
اس نے چور سے کہا !
" چلو میں نے تمہاری ساری باتیں مان لیں ! لیکن یہ تو بتاؤ میری یہ سبزیاں اس بوری میں کس طرح پہنچ گئیں ؟"
چور نے بڑی سادگی اور بھولپن سے جواب دیا !
" جناب والا ! یہی بات تو میں خود سوچ رہا تھا کہ آپ تشریف لے آئے "