-|A|-
03-29-2009, 06:27 PM
تھرپارکر کے ریگستان میں کار ریلی
http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/03/090328165113_car_rally_cholistan226.jpg
چولستان میں ہر برس کار ریلی منعقد ہوتی ہے(فائل فوٹو)
پاکستان کے صوبۂ سندھ کے ریگستانی ضلع تھرپارکر میں سینیچر کو منعقد ہونے والی کار ریلی اسد کھوڑو نے جیت لی ہے۔
مقابلے میں حصہ لینے والی گاڑیوں نے مٹھی کے اطراف ایک سو چھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔ پہلے نمبر پر آنے والے اسد کھوڑو نے یہ فاصلہ ایک گھنٹے بیس منٹ اور سولہ سیکنڈ میں طے کیا۔ دوسرے نمبر پر منظور مگسی جبکہ تیسرے نمبر پر عامر مگسی آئے جو موجودہ ایم این اے اور سابق سینیٹر ہیں۔کار ریلی میں جیتنے والوں کے لیے تین، دو اور ایک لاکھ روپے کی انعامی رقم بھی رکھی گئی تھی۔
سندھ میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی کار ریلی ہے جس کا انعقاد تھرپارکر میں کیا گیا جو مکمل طور پر ریگستانی علاقہ ہے۔ تھرپارکر کے ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹر آفسر یعنی ڈی سی او سمیع الدین صدیقی نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کے دوسرے علاقوں میں تو کار ریلیاں منعقد ہوتی رہتی ہیں لیکن سندھ کے اس ریگستانی علاقے میں اس کھیل کو پہلی بار متعارف کروایا گیا ہے۔
ان کے بقول پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے چولستان میں اس قسم کی کار ریلی کا انعقاد مستقل بنیادوں پر کیا جا رہا ہے جسے کئی لاکھ لوگ دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جھل مگسی کے علاقے میں بھی ایسے مقابلے ہر سال منعقد ہوتے ہیں جن میں ہزاروں شائقین شرکت کرتے ہیں۔ سمیع الدین صدیقی نے بتایا کہ تھرپارکر میں جہاں یہ ریلی منعقد ہوئی ہے وہاں ایک ریلی ولیج بنایا گیا تھا جہاں مختلف شہروں سے آکر ریلی میں شرکت کرنے والے ڈرائیوروں کو ٹھہرایا گیا تھا اور انہیں سہولیات بہم پہنچائی گئیں تھیں۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے چولستان میں اس قسم کی کار ریلی کا انعقاد مستقل بنیادوں پر کیا جا رہا ہے جسے کئی لاکھ لوگ دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جھل مگسی کے علاقے میں بھی ایسے مقابلے ہر سال منعقد ہوتے ہیں جن میں ہزاروں شائقین شرکت کرتے ہیں۔جہاں اس کار ریلی کو مقامی آبادی کے ایک حصے نے سراہا ہے وہیں دوسری جانب ایک گروپ نے اس کار ریلی کے انعقاد کے خلاف مظاہرہ بھی کیا۔ مقامی وکیل شاہنواز نے کار ریلی کے انعقاد کو رکوانے کے لیے عدالت سے رجوع کیا اور درخواست کی کہ اس سلسلے میں حکم امتناعی جاری کیا جائے۔
شاہنواز نے کہا کہ وہ اس لیے کار ریلی کے خلاف ہیں کیونکہ یہ اس علاقے کی ثقافت نہیں ہے اور یہ کہ کار ریلی کے راستے میں جو درخت آتے ہیں انہیں بھی کاٹ دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ مقامی ثقافت کو اجاگر کرے کیونکہ کار ریلی تو اس علاقے کے غریب عوام سے مذاق کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں تھر کی ثقافت میں اونٹ، گھوڑے اور جو سواریاں تھر میں استعمال ہوتی ہیں ان کی ریس کا انعقاد ہونا چاہیے۔’یہاں کے عوام کے پاس کھانے کو روٹی نہیں تو گاڑیاں کہاں سے لائیں گے‘۔
http://www.bbc.co.uk/worldservice/assets/images/2009/03/090328165113_car_rally_cholistan226.jpg
چولستان میں ہر برس کار ریلی منعقد ہوتی ہے(فائل فوٹو)
پاکستان کے صوبۂ سندھ کے ریگستانی ضلع تھرپارکر میں سینیچر کو منعقد ہونے والی کار ریلی اسد کھوڑو نے جیت لی ہے۔
مقابلے میں حصہ لینے والی گاڑیوں نے مٹھی کے اطراف ایک سو چھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔ پہلے نمبر پر آنے والے اسد کھوڑو نے یہ فاصلہ ایک گھنٹے بیس منٹ اور سولہ سیکنڈ میں طے کیا۔ دوسرے نمبر پر منظور مگسی جبکہ تیسرے نمبر پر عامر مگسی آئے جو موجودہ ایم این اے اور سابق سینیٹر ہیں۔کار ریلی میں جیتنے والوں کے لیے تین، دو اور ایک لاکھ روپے کی انعامی رقم بھی رکھی گئی تھی۔
سندھ میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی کار ریلی ہے جس کا انعقاد تھرپارکر میں کیا گیا جو مکمل طور پر ریگستانی علاقہ ہے۔ تھرپارکر کے ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹر آفسر یعنی ڈی سی او سمیع الدین صدیقی نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کے دوسرے علاقوں میں تو کار ریلیاں منعقد ہوتی رہتی ہیں لیکن سندھ کے اس ریگستانی علاقے میں اس کھیل کو پہلی بار متعارف کروایا گیا ہے۔
ان کے بقول پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے چولستان میں اس قسم کی کار ریلی کا انعقاد مستقل بنیادوں پر کیا جا رہا ہے جسے کئی لاکھ لوگ دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جھل مگسی کے علاقے میں بھی ایسے مقابلے ہر سال منعقد ہوتے ہیں جن میں ہزاروں شائقین شرکت کرتے ہیں۔ سمیع الدین صدیقی نے بتایا کہ تھرپارکر میں جہاں یہ ریلی منعقد ہوئی ہے وہاں ایک ریلی ولیج بنایا گیا تھا جہاں مختلف شہروں سے آکر ریلی میں شرکت کرنے والے ڈرائیوروں کو ٹھہرایا گیا تھا اور انہیں سہولیات بہم پہنچائی گئیں تھیں۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے چولستان میں اس قسم کی کار ریلی کا انعقاد مستقل بنیادوں پر کیا جا رہا ہے جسے کئی لاکھ لوگ دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جھل مگسی کے علاقے میں بھی ایسے مقابلے ہر سال منعقد ہوتے ہیں جن میں ہزاروں شائقین شرکت کرتے ہیں۔جہاں اس کار ریلی کو مقامی آبادی کے ایک حصے نے سراہا ہے وہیں دوسری جانب ایک گروپ نے اس کار ریلی کے انعقاد کے خلاف مظاہرہ بھی کیا۔ مقامی وکیل شاہنواز نے کار ریلی کے انعقاد کو رکوانے کے لیے عدالت سے رجوع کیا اور درخواست کی کہ اس سلسلے میں حکم امتناعی جاری کیا جائے۔
شاہنواز نے کہا کہ وہ اس لیے کار ریلی کے خلاف ہیں کیونکہ یہ اس علاقے کی ثقافت نہیں ہے اور یہ کہ کار ریلی کے راستے میں جو درخت آتے ہیں انہیں بھی کاٹ دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ مقامی ثقافت کو اجاگر کرے کیونکہ کار ریلی تو اس علاقے کے غریب عوام سے مذاق کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں تھر کی ثقافت میں اونٹ، گھوڑے اور جو سواریاں تھر میں استعمال ہوتی ہیں ان کی ریس کا انعقاد ہونا چاہیے۔’یہاں کے عوام کے پاس کھانے کو روٹی نہیں تو گاڑیاں کہاں سے لائیں گے‘۔