pakeeza
07-06-2013, 02:06 PM
دنیا کے مصائب پر صبر
حضرت لقمان کسی سردارکے یہاں ملازم تھے آپکے اعلی اخلاق وکردار کی وجہ سے آپ کاسردار آپ سے محبت کرنے لگا وہ اس وقت تک نہ کھاتا جب تک پہلے حضرت لقمان نہ کھالیتے وہ سردار آپ کے چھوڑے ہوے کھانے سے ھی کھا لینا اپنی سعادت سمجھتا
ایک دن سردار کے پاس خربوزہ آیا سرادر نے حضرت لقمان کو بلوا کر خود کاٹ کاٹ کر انھیں قاشیں دینے لگا اور بڑی محبت بھری ادا کے ساتھ حضرت کو کھاتا دیکھ کر خوش ھو رہا تھا حضرت لقمان بھی مسکرا کر اسکی محبت کا جواب دے رھے تھے ایک قاش باقی رہ گی تو سردار نے کہا اجازت ھو یہ میں کھالوں آپ نے اجازت دیدی اس نے وہ قاش منہ میں رکھی وہ اتنی کڑوی تھی کہ سردار کےمنہ میں چھالے پڑ گے اس نے عرض کی اے میرے محبوب آ پ نے اس کی کڑواھٹ کس طرح برداشت کی
حضرت نے فرمایا میرے آقا آپ کے ہاتھ سے ھزاروں نعمتیں کھای ھیں جن کے شکر سے میری کمر جھک گی ھے اسی ہاتھ سے آج اگر کڑوی چیز مل رھی ھے تو میں منہ کیوں پھیر دوں
ھم سوچیں لاکھوں نعمتیں ھمیں روز مل رھی ہیں اگر ذرا تکلیف آجاے ہم فورا نا شکرے بن جاتے ہیں اسکے انعامات کو بھول جاتے ہیں اللہ حکیم بھی ھے حاکم بھی اور حکیم مرض کےموافق ھی دوادیتا ھے کھی دوای میں حلوا کبھی بادام اور کبھی گلو اور نیم کے پتے کھلادیتاھے دونوں حالتوں میں فائدہ مریض ہی کاہوتا ھے
ایک حدیث میں آتاھے جب دنیا کے مصائب پر صبر کے عوض قیامت کے دن ثواب ملےگا تو ہر کوئی تمنا کرے گا کاش دنیا میں میری کھال قینچی سے کاٹ دیجاتی
حضرت لقمان کسی سردارکے یہاں ملازم تھے آپکے اعلی اخلاق وکردار کی وجہ سے آپ کاسردار آپ سے محبت کرنے لگا وہ اس وقت تک نہ کھاتا جب تک پہلے حضرت لقمان نہ کھالیتے وہ سردار آپ کے چھوڑے ہوے کھانے سے ھی کھا لینا اپنی سعادت سمجھتا
ایک دن سردار کے پاس خربوزہ آیا سرادر نے حضرت لقمان کو بلوا کر خود کاٹ کاٹ کر انھیں قاشیں دینے لگا اور بڑی محبت بھری ادا کے ساتھ حضرت کو کھاتا دیکھ کر خوش ھو رہا تھا حضرت لقمان بھی مسکرا کر اسکی محبت کا جواب دے رھے تھے ایک قاش باقی رہ گی تو سردار نے کہا اجازت ھو یہ میں کھالوں آپ نے اجازت دیدی اس نے وہ قاش منہ میں رکھی وہ اتنی کڑوی تھی کہ سردار کےمنہ میں چھالے پڑ گے اس نے عرض کی اے میرے محبوب آ پ نے اس کی کڑواھٹ کس طرح برداشت کی
حضرت نے فرمایا میرے آقا آپ کے ہاتھ سے ھزاروں نعمتیں کھای ھیں جن کے شکر سے میری کمر جھک گی ھے اسی ہاتھ سے آج اگر کڑوی چیز مل رھی ھے تو میں منہ کیوں پھیر دوں
ھم سوچیں لاکھوں نعمتیں ھمیں روز مل رھی ہیں اگر ذرا تکلیف آجاے ہم فورا نا شکرے بن جاتے ہیں اسکے انعامات کو بھول جاتے ہیں اللہ حکیم بھی ھے حاکم بھی اور حکیم مرض کےموافق ھی دوادیتا ھے کھی دوای میں حلوا کبھی بادام اور کبھی گلو اور نیم کے پتے کھلادیتاھے دونوں حالتوں میں فائدہ مریض ہی کاہوتا ھے
ایک حدیث میں آتاھے جب دنیا کے مصائب پر صبر کے عوض قیامت کے دن ثواب ملےگا تو ہر کوئی تمنا کرے گا کاش دنیا میں میری کھال قینچی سے کاٹ دیجاتی