FAJAAN
09-17-2009, 03:29 AM
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
دوستوں ہم پچھلے دنوں ایک فورم پر ایک بھائی کا تھریڈ دیکھ رہے تھے جس میں انہوں نے ایک انٹرویو کا سلسلہ شروع کیا تھا اور کچھ سوالات پیش کئے تھے جو بار بار ممبرز ان کے جوابات دے رہے تھے
بس یونہی ہم نے بھی ایک انٹویو لکھنا شروع کیا اور اس کو مختلف فورمز پر پوسٹ کیا
لیکن اس فورم پر ہم ایکٹو نہیں تھے اس لئے اس فورم پر پوسٹ نہیں کیا تھا ۔
آج حوریا سسٹر کا ایک تھریڈ (کچھ تعلیم بھی ضروری ہے یا صرف انٹر ٹیٹمنٹ )دیکھ رہے تھے
جس میں حوریا سسٹر نے ہمارے معاشرے میں کی کچھ کوتاہیوں کا ذکر کیا تھا جس کو پڑھ کر ہم نے سوچا کہ کیوں نہ آپ تمام دوستوں سے بھی اس تھریڈ کو شئیر کیا جائے ۔
آج ہمارے معاشرے میں بہت بے چینی اور بے پناہ مسائل موجود ہیں ۔تقریبا ہر شخص ہی ان مسائل کا حل چاہتا ہے لیکن مسائل حل ہونے کے بجائے دن بدن بڑھتے جارہے ہیں
دوستوں کبھی ہم نے سوچا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے کہ چاہے ملکی سطح پر یا عوامی سطح پر ان مسائل کو حل کرنے کی تمام تو کوششوں کے کے باوجود (مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی) کے مصداق بجائے مسائل حل ہونے کے دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے
یقینا کہیں نہ کہیں تو کوئی نہ کوئی ہمارے مسائل حل کرنے کے اقدامات میں خامیاں ہیں
دوستوں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی مرض کا علاج کرنے کے لئے سب سے پہلے مرض کی تشخیص کی جاتی ہے
اس کے بعد ہی کوئی دوائی دی جاتی ہے بصورت دیگر جہاں درد اٹھا وہاں دوا لگادی تو وقتی طور پر تو مریض کو آرام آجاتا ہے لیکن اس وقتی دوائیوں سے مریض کی بیماری خطرناک پوزیشن کی طرف چلی جاتی ہے کیوں تشخیص درست نہیں ہے اور درد کی وجہ کچھ اور تھی اور دوائی صرف وقتی آرام کے لئے تھی۔
اس سلسلے میں ہوسکتا ہے کہ ہمارے تھریڈ میں موجود ایک پیغام سے دوستوں کو یہ سمجھنے کا موقعہ ملے کہ
ان بے پناہ مسائل کی جڑ اصل میں کہاں موجود ہے ?اور کیا ان بے پناہ مسائل کو بھی حل کرنا ممکن ہے ?
یاان مسائل کے حل کیا ہیں ?
امید ہے ہمارے اس تھریڈ میںموجود پیغام سے بہت سے دوستوں کو ان سوالات کے جوابات سمجھنے میں مدد مل جائے۔
دعاوں کا طلب گار
ناصر نعمان
ایک ) آپ کا اصلی نام کیا
اسلامی جمہوریہ پاکستان
دو )آپ کی عمر
چودہ اگست 2009 کو پورے 62 سال کی ہوگئی ہے
تقریبا سترہ کروڑ اٹھائیس لاکھ عوام سب میرے بچے ہیں
تین) کیا کبھی کسی سے محبت کی ہے اگر کی ہے تو اس کا کیا نتیجہ نکلا
محبت کے لئے شروع سے میری عادت رہی ہے کہ جس نے مجھ سے جتنی محبت کی میں نے اس سے اتنی ہی محبت کی
مجھے حاصل کرنے کے لئے میرے جن بچوں نے قربانیاں دیں میں نے ان لوگوں کو نام دیا،رہنے کے لئے چھت دی،اور سب سے خاص انعام ان کی نسلوں کو ملا جس کا نام آزادی تھی
لیکن رفتہ رفتہ آنے والی نسلیں مجھ سے محبت کم کرتی جارہی ہیں اور آزادی کی عظیم نعمت کو بھلاتی چلی جارہی ہیں
ان نسلوں کو چاہیے کہ آزادی کی نعمت کو سمجھنے کے لئے ان لوگوںکو دیکھیں جن سے آزادی چھین لی گئی ہے اور آج سر عام ان کے بچوں کو بغیر کسی جرم کے گولیوں کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے اور عورتوں کی بے عزتی کی جاتی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا
یہ ہوتی ہے آزادی جس کی اہمیت کو کسی کو اندازہ نہیں
اور ہوتا بھی کیسے ? بھلا کسی پیٹ بھرے کو روٹی کی قیمت کا اندازہ بھی ہوتا ہے ?
تو آج نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ان بچوں میں اور میری محبت میں فاصلہ بڑھتا جارہا ہے
بس میرا تو محبت میں یہی اصول ہے کہ مجھ سے جتنی محبت کرو گے اتنی ہی محبت پاو گے
چار) آپ کو کھانے میں کیا پسند ہے
میری خوراک تو میرے بچوں کا ایماندری سے محنت کرناہے
میرے بچے جو کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں اپنی پوری محنت اور ایمانداری سے دل لگا کر محنت کرتے ہیں تو یقین مانیں کہ میرے جسم میں گویا جان سی پڑ جاتی ہے
آپ کہیں گے کہ محنت تو سب ہی کرتے ہیں
نہیں میرے دوستوں محنت اس کو نہیں کہتے کہ جائز ناجائز راستوں سے صرف اپنے عیش و عشرت کے لئے دولت کمائی جائے
بلکہ میرے لئے خوراک تو ایمانداری سے ٹیکس کی ادائیگی ہے
ناجائز راستوں سے دولت کمانے سے اجتناب ہے زر مبادلہ کے ذخائر ہیں
اور مجھے سب سے اچھی غذا اس وقت ملتی ہے کہ جب امن و امان ہو
تو میرا پیٹ بھرتا رہتا ہے جس کو آپ لوگ معیشت کہتے ہیں
اور میری یہ پسندیدہ خوراک میرے بچوں کے ہی کام آتی ہے
جب میںخوشحال ہوں گا تو یقینا میرا بچہ بچہ خوشحال ہوگا
پانچ )آپ کی پسندیدہ ایکٹر اور ایکٹرس کون ہے
پسندیدہ تو نہیں بتا سکتا ہاں البتہ ناپسند ایکٹر میں مجھے وہ تمام سیاستدان جو محب وطن ہونے کی ایکٹنگ کر کے میرے بچوں کو بے وقوف بناتے ہیں اور مجھے شدید نقصان پہنچاتے ہیں
اور میرے بچوں پتہ ہے میرے بچوں کی بڑی اکثریت کے چاہتے ہوئے بھی کہ ان سے جان چھوٹ جائے اور اچھے لوگ ایماندار لوگ اس ملک کی باگ دوڑ سنبھال لیں لیکن پھر بھی ایسے لوگ میرے بچوں پر کیوں مسلط ہیں ?
کیوں کہ میرے بچوں کی بڑی اکثریت ایسی ہی ہوگئی ہے
اس کی آسان مثال یوں سمجھیں کہ جیسے میرے بچوں میں کوئی بزنس کے شعبے سے وابستہ ہے کوئی دوکاندار ہے تو کوئی سرکاری ملازم ہے تو کوئی پرائیوٹ ملازم ہے یا کوئی کسان ہے یا زمیندار ہے
سب بچے اپنے اپنے ضمیر کو گواہ بنا کر سوچیں کہ آپ لوگوں میں سے کون کون ہے جو میرا درد دل میں رکھ کر اپنی ایمانداری سے اپنے فرائض ادا کررہا ہے
جس کو جہاں موقع ملتا ہے تو اپنی طرف سے کرپشن میں ملوث ہے
بس فرق اتنا ہے کہ کوئی چھوٹے پیمانے پر تو کوئی بڑے پیمانے پر
تو جب بڑی اکثریت سے لوگ کرپشن میں ملوث ہوں گے تو ان کو رہنما کیسے اچھے مل سکتے ہیں ?
یہ تو آپ لوگ خود ہی سوچ سکتے ہیں کہ آج اگر (دس روپے والی کرپشن میں ملوث) کسی شخص کو وزیر بنادیا جائے تو وہ کیا کرے گا ?
کیا میرا درد محسوس کر کے ایمانداری سے وزارت کے فرائض ادا کرے گا
یا جب دس روپے والے کرپشن میں ملوث شخص کو اختیار دس کروڑ والے کرپشن کا مل جائے گا
تو وہ وہی حرکت کرے گا جو اپنی آج کی پوزیشن(دس روپے والی کرپشن میں ) میں کر رہا ہے
کیوں کہ جب وہ آج اپنے محدود دائرہ اختیار ہونے کے باوجود میرا درد دل میں نہیں رکھتا تو وہ وزیر بن کر کیسے میرا درد دل میں رکھے گا?
میرے بچوں یہ تو جیسی کرنی ویسی بھرنی والا معاملہ ہے
چھ ) زندگی میں کس چیز کی کمی محسوس کرتے ہیں
ایک چھوٹی سی مثال دینا چاہوں گا اسی میں میری ساری کمیوں کا احساس موجود ہے کاش کہ میرے بچے سمجھ جائیں
ایک بادشاہ تھا وہ اپنے بستی میں ایک بڑا سا تالاب کھدواتا ہے اور پوری بستی میں اعلان کر دیتا ہے کہ آج رات کو پوری پستی والے اپنے اپنے گھروں سے ایک ایک بالٹی دودھ کی اس تالاب میں ڈالیں گے
پھر رات کو تمام بستی والے ایک ایک بالٹی اس تالاب میں ڈال دیتے ہیں
جب بادشاہ صبح صبح اس تالاب کو دیکھنے کے لئے جاتا ہے تو وہ حیران ہوجاتا ہے کہ پورے کا پورا تالاب بجائے دودھ کے پانی سے بھرا ہوتا ہے
میرے بچوں پتہ ہے ایسا کیوں ہوتا ہے ?
کیوں کہ بستی کا ہر شخص یہ سوچتا ہے کہ ہر کوئی تو دودھ کی بالٹی تالاب میں ڈال رہا ہے تو میں اگر اکیلا پانی کی بالٹی ڈال دوں گا تو اس سے کیا فرق پڑے گا اور رات بھی ہے کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا
میرے بچوں جب اسی طرح پوری کی پوری بستی نے یہی سوچ لیا تو اس تالاب میں پانی ہی بھرنا تھا دودھ کہاں سے ملتا
میرے بچوں آج میرا یہی حال ہے کہ میرے ہر بچے نے یہی سوچ لیا ہے کہ سب لوگ کرپشن میں ملوث ہیں اگر ایک میں کر رہا ہوں تو اس سے کیا فرق پڑے گا اور جب مرے بچوں کی بڑی اکثریت نے یہی سوچ لیا تو پھر میرا ایسا حال تو بننا ہی تھا
پھر میرے بچے کس کو روتے ہیں ?
کیوں کسی سے گلہ کرتے ہیں کہ فلاںسیاستدان نے ایسا کیا فلاں سرکاری افسر نے ویسا کیا
میرے بچوں یہ تو سوچو کہ تم نے کیا کیا
کیا تم نہیں ذمہ دار میری تباہی کے ?
تم گلہ کرتے ہو کہ سارا تالاب پانی سے بھرا ہوا ہے
میرے بچوں یہ تو سوچو کہ تم نے کبھی دودھ کی بالٹی ڈالی ?
سات )اس سائٹ کے یوزرز کے لیئے کوئی پیغام دینا چاہے گے
میں اپنے تمام بچوں کے لئے ایک چھوٹا سا واقعہ بطور پیغام کے دینا چاہتا ہوں اگر میرے بچے مجھے زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو اس پیغام پر ضرور عمل کریں گے
جب حضرت ابراھیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالاجارہا تھا تو ایک ننھی سی چڑیا تھی جو اپنی چونچ میں پانی کا ایک قطرہ لاتی اور آگ کے پاس گرا دیتی ۔ کسی نے دیکھا تو ہنس کے کہا کہ اے ننھی سی چڑیا کیا تیرے اس پانی سے آگ بجھ جائے گی ۔ اس پر چڑیا نے کہا میں جانتی ہوں کہ میرے اس پانی سے آگ نہیں بجھے گی لیکن میں بروز قیامت تماشہ دیکھنے والوں کی صف میں کھڑے ہونے کے بجائے آگ بجھانے والوں کی صف میں کھڑا ہونا چاہتی ہوں ۔
میرے بچوں میرا بس یہی پیغام ہے کہ آپ اپنی طرف سے پانی ڈال دیں
آپ اپنی طرف سے دودھ کی بالٹی ڈالنا شروع کریں
کم سے کم آپ کا فریضہ ادا ہوجائے گا
اور جب میرے بچوں کی اکثریت یہ عمل شروع کردے گی تو یقینا پھر تالاب میں پانی کے بجائے دودھ نظر آنے لگ جائے گا
والسلام
پاکستان
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
دوستوں ہم پچھلے دنوں ایک فورم پر ایک بھائی کا تھریڈ دیکھ رہے تھے جس میں انہوں نے ایک انٹرویو کا سلسلہ شروع کیا تھا اور کچھ سوالات پیش کئے تھے جو بار بار ممبرز ان کے جوابات دے رہے تھے
بس یونہی ہم نے بھی ایک انٹویو لکھنا شروع کیا اور اس کو مختلف فورمز پر پوسٹ کیا
لیکن اس فورم پر ہم ایکٹو نہیں تھے اس لئے اس فورم پر پوسٹ نہیں کیا تھا ۔
آج حوریا سسٹر کا ایک تھریڈ (کچھ تعلیم بھی ضروری ہے یا صرف انٹر ٹیٹمنٹ )دیکھ رہے تھے
جس میں حوریا سسٹر نے ہمارے معاشرے میں کی کچھ کوتاہیوں کا ذکر کیا تھا جس کو پڑھ کر ہم نے سوچا کہ کیوں نہ آپ تمام دوستوں سے بھی اس تھریڈ کو شئیر کیا جائے ۔
آج ہمارے معاشرے میں بہت بے چینی اور بے پناہ مسائل موجود ہیں ۔تقریبا ہر شخص ہی ان مسائل کا حل چاہتا ہے لیکن مسائل حل ہونے کے بجائے دن بدن بڑھتے جارہے ہیں
دوستوں کبھی ہم نے سوچا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے کہ چاہے ملکی سطح پر یا عوامی سطح پر ان مسائل کو حل کرنے کی تمام تو کوششوں کے کے باوجود (مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی) کے مصداق بجائے مسائل حل ہونے کے دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے
یقینا کہیں نہ کہیں تو کوئی نہ کوئی ہمارے مسائل حل کرنے کے اقدامات میں خامیاں ہیں
دوستوں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی مرض کا علاج کرنے کے لئے سب سے پہلے مرض کی تشخیص کی جاتی ہے
اس کے بعد ہی کوئی دوائی دی جاتی ہے بصورت دیگر جہاں درد اٹھا وہاں دوا لگادی تو وقتی طور پر تو مریض کو آرام آجاتا ہے لیکن اس وقتی دوائیوں سے مریض کی بیماری خطرناک پوزیشن کی طرف چلی جاتی ہے کیوں تشخیص درست نہیں ہے اور درد کی وجہ کچھ اور تھی اور دوائی صرف وقتی آرام کے لئے تھی۔
اس سلسلے میں ہوسکتا ہے کہ ہمارے تھریڈ میں موجود ایک پیغام سے دوستوں کو یہ سمجھنے کا موقعہ ملے کہ
ان بے پناہ مسائل کی جڑ اصل میں کہاں موجود ہے ?اور کیا ان بے پناہ مسائل کو بھی حل کرنا ممکن ہے ?
یاان مسائل کے حل کیا ہیں ?
امید ہے ہمارے اس تھریڈ میںموجود پیغام سے بہت سے دوستوں کو ان سوالات کے جوابات سمجھنے میں مدد مل جائے۔
دعاوں کا طلب گار
ناصر نعمان
ایک ) آپ کا اصلی نام کیا
اسلامی جمہوریہ پاکستان
دو )آپ کی عمر
چودہ اگست 2009 کو پورے 62 سال کی ہوگئی ہے
تقریبا سترہ کروڑ اٹھائیس لاکھ عوام سب میرے بچے ہیں
تین) کیا کبھی کسی سے محبت کی ہے اگر کی ہے تو اس کا کیا نتیجہ نکلا
محبت کے لئے شروع سے میری عادت رہی ہے کہ جس نے مجھ سے جتنی محبت کی میں نے اس سے اتنی ہی محبت کی
مجھے حاصل کرنے کے لئے میرے جن بچوں نے قربانیاں دیں میں نے ان لوگوں کو نام دیا،رہنے کے لئے چھت دی،اور سب سے خاص انعام ان کی نسلوں کو ملا جس کا نام آزادی تھی
لیکن رفتہ رفتہ آنے والی نسلیں مجھ سے محبت کم کرتی جارہی ہیں اور آزادی کی عظیم نعمت کو بھلاتی چلی جارہی ہیں
ان نسلوں کو چاہیے کہ آزادی کی نعمت کو سمجھنے کے لئے ان لوگوںکو دیکھیں جن سے آزادی چھین لی گئی ہے اور آج سر عام ان کے بچوں کو بغیر کسی جرم کے گولیوں کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے اور عورتوں کی بے عزتی کی جاتی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا
یہ ہوتی ہے آزادی جس کی اہمیت کو کسی کو اندازہ نہیں
اور ہوتا بھی کیسے ? بھلا کسی پیٹ بھرے کو روٹی کی قیمت کا اندازہ بھی ہوتا ہے ?
تو آج نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ان بچوں میں اور میری محبت میں فاصلہ بڑھتا جارہا ہے
بس میرا تو محبت میں یہی اصول ہے کہ مجھ سے جتنی محبت کرو گے اتنی ہی محبت پاو گے
چار) آپ کو کھانے میں کیا پسند ہے
میری خوراک تو میرے بچوں کا ایماندری سے محنت کرناہے
میرے بچے جو کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں اپنی پوری محنت اور ایمانداری سے دل لگا کر محنت کرتے ہیں تو یقین مانیں کہ میرے جسم میں گویا جان سی پڑ جاتی ہے
آپ کہیں گے کہ محنت تو سب ہی کرتے ہیں
نہیں میرے دوستوں محنت اس کو نہیں کہتے کہ جائز ناجائز راستوں سے صرف اپنے عیش و عشرت کے لئے دولت کمائی جائے
بلکہ میرے لئے خوراک تو ایمانداری سے ٹیکس کی ادائیگی ہے
ناجائز راستوں سے دولت کمانے سے اجتناب ہے زر مبادلہ کے ذخائر ہیں
اور مجھے سب سے اچھی غذا اس وقت ملتی ہے کہ جب امن و امان ہو
تو میرا پیٹ بھرتا رہتا ہے جس کو آپ لوگ معیشت کہتے ہیں
اور میری یہ پسندیدہ خوراک میرے بچوں کے ہی کام آتی ہے
جب میںخوشحال ہوں گا تو یقینا میرا بچہ بچہ خوشحال ہوگا
پانچ )آپ کی پسندیدہ ایکٹر اور ایکٹرس کون ہے
پسندیدہ تو نہیں بتا سکتا ہاں البتہ ناپسند ایکٹر میں مجھے وہ تمام سیاستدان جو محب وطن ہونے کی ایکٹنگ کر کے میرے بچوں کو بے وقوف بناتے ہیں اور مجھے شدید نقصان پہنچاتے ہیں
اور میرے بچوں پتہ ہے میرے بچوں کی بڑی اکثریت کے چاہتے ہوئے بھی کہ ان سے جان چھوٹ جائے اور اچھے لوگ ایماندار لوگ اس ملک کی باگ دوڑ سنبھال لیں لیکن پھر بھی ایسے لوگ میرے بچوں پر کیوں مسلط ہیں ?
کیوں کہ میرے بچوں کی بڑی اکثریت ایسی ہی ہوگئی ہے
اس کی آسان مثال یوں سمجھیں کہ جیسے میرے بچوں میں کوئی بزنس کے شعبے سے وابستہ ہے کوئی دوکاندار ہے تو کوئی سرکاری ملازم ہے تو کوئی پرائیوٹ ملازم ہے یا کوئی کسان ہے یا زمیندار ہے
سب بچے اپنے اپنے ضمیر کو گواہ بنا کر سوچیں کہ آپ لوگوں میں سے کون کون ہے جو میرا درد دل میں رکھ کر اپنی ایمانداری سے اپنے فرائض ادا کررہا ہے
جس کو جہاں موقع ملتا ہے تو اپنی طرف سے کرپشن میں ملوث ہے
بس فرق اتنا ہے کہ کوئی چھوٹے پیمانے پر تو کوئی بڑے پیمانے پر
تو جب بڑی اکثریت سے لوگ کرپشن میں ملوث ہوں گے تو ان کو رہنما کیسے اچھے مل سکتے ہیں ?
یہ تو آپ لوگ خود ہی سوچ سکتے ہیں کہ آج اگر (دس روپے والی کرپشن میں ملوث) کسی شخص کو وزیر بنادیا جائے تو وہ کیا کرے گا ?
کیا میرا درد محسوس کر کے ایمانداری سے وزارت کے فرائض ادا کرے گا
یا جب دس روپے والے کرپشن میں ملوث شخص کو اختیار دس کروڑ والے کرپشن کا مل جائے گا
تو وہ وہی حرکت کرے گا جو اپنی آج کی پوزیشن(دس روپے والی کرپشن میں ) میں کر رہا ہے
کیوں کہ جب وہ آج اپنے محدود دائرہ اختیار ہونے کے باوجود میرا درد دل میں نہیں رکھتا تو وہ وزیر بن کر کیسے میرا درد دل میں رکھے گا?
میرے بچوں یہ تو جیسی کرنی ویسی بھرنی والا معاملہ ہے
چھ ) زندگی میں کس چیز کی کمی محسوس کرتے ہیں
ایک چھوٹی سی مثال دینا چاہوں گا اسی میں میری ساری کمیوں کا احساس موجود ہے کاش کہ میرے بچے سمجھ جائیں
ایک بادشاہ تھا وہ اپنے بستی میں ایک بڑا سا تالاب کھدواتا ہے اور پوری بستی میں اعلان کر دیتا ہے کہ آج رات کو پوری پستی والے اپنے اپنے گھروں سے ایک ایک بالٹی دودھ کی اس تالاب میں ڈالیں گے
پھر رات کو تمام بستی والے ایک ایک بالٹی اس تالاب میں ڈال دیتے ہیں
جب بادشاہ صبح صبح اس تالاب کو دیکھنے کے لئے جاتا ہے تو وہ حیران ہوجاتا ہے کہ پورے کا پورا تالاب بجائے دودھ کے پانی سے بھرا ہوتا ہے
میرے بچوں پتہ ہے ایسا کیوں ہوتا ہے ?
کیوں کہ بستی کا ہر شخص یہ سوچتا ہے کہ ہر کوئی تو دودھ کی بالٹی تالاب میں ڈال رہا ہے تو میں اگر اکیلا پانی کی بالٹی ڈال دوں گا تو اس سے کیا فرق پڑے گا اور رات بھی ہے کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا
میرے بچوں جب اسی طرح پوری کی پوری بستی نے یہی سوچ لیا تو اس تالاب میں پانی ہی بھرنا تھا دودھ کہاں سے ملتا
میرے بچوں آج میرا یہی حال ہے کہ میرے ہر بچے نے یہی سوچ لیا ہے کہ سب لوگ کرپشن میں ملوث ہیں اگر ایک میں کر رہا ہوں تو اس سے کیا فرق پڑے گا اور جب مرے بچوں کی بڑی اکثریت نے یہی سوچ لیا تو پھر میرا ایسا حال تو بننا ہی تھا
پھر میرے بچے کس کو روتے ہیں ?
کیوں کسی سے گلہ کرتے ہیں کہ فلاںسیاستدان نے ایسا کیا فلاں سرکاری افسر نے ویسا کیا
میرے بچوں یہ تو سوچو کہ تم نے کیا کیا
کیا تم نہیں ذمہ دار میری تباہی کے ?
تم گلہ کرتے ہو کہ سارا تالاب پانی سے بھرا ہوا ہے
میرے بچوں یہ تو سوچو کہ تم نے کبھی دودھ کی بالٹی ڈالی ?
سات )اس سائٹ کے یوزرز کے لیئے کوئی پیغام دینا چاہے گے
میں اپنے تمام بچوں کے لئے ایک چھوٹا سا واقعہ بطور پیغام کے دینا چاہتا ہوں اگر میرے بچے مجھے زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو اس پیغام پر ضرور عمل کریں گے
جب حضرت ابراھیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالاجارہا تھا تو ایک ننھی سی چڑیا تھی جو اپنی چونچ میں پانی کا ایک قطرہ لاتی اور آگ کے پاس گرا دیتی ۔ کسی نے دیکھا تو ہنس کے کہا کہ اے ننھی سی چڑیا کیا تیرے اس پانی سے آگ بجھ جائے گی ۔ اس پر چڑیا نے کہا میں جانتی ہوں کہ میرے اس پانی سے آگ نہیں بجھے گی لیکن میں بروز قیامت تماشہ دیکھنے والوں کی صف میں کھڑے ہونے کے بجائے آگ بجھانے والوں کی صف میں کھڑا ہونا چاہتی ہوں ۔
میرے بچوں میرا بس یہی پیغام ہے کہ آپ اپنی طرف سے پانی ڈال دیں
آپ اپنی طرف سے دودھ کی بالٹی ڈالنا شروع کریں
کم سے کم آپ کا فریضہ ادا ہوجائے گا
اور جب میرے بچوں کی اکثریت یہ عمل شروع کردے گی تو یقینا پھر تالاب میں پانی کے بجائے دودھ نظر آنے لگ جائے گا
والسلام
پاکستان