برداشت کا امتحان
::::::::::::::::::::
بچپن میں ایک بہت دلچسپ شرارت کیا کرتے تھے۔۔۔ کسی کو چیک کرنے کے لئے کہ یہ مجھ سے ڈرتا ہے یا نہیں اس کی کھلی آنکھوں کے سامنے بالکل قریب ہاتھ لے جاکر تیزی سے ہلاتے تھے، اگر اس کی پلک جھپک جاتی تو اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ ڈرپوک ہے۔۔۔۔ وہ بے چارہ اگر "تمغہ جرات" کے حصول کی جدوجہد میں زبردستی آنکھیں کھولے رکھتا تو چیک کرنے والا "ظالم" اس کی آنکھوں میں انگلیاں ٹھونس کر بند کروادیتا اور مشہور کردیتا کہ ڈر گیا۔۔ ڈرگیا۔۔۔۔
بالکل اسی طرح ہمارے بعض دوست بھی مولویوں کا ٹیمپرا منٹ چیک کرنے کے لئے ایسی شرارتیں کرتے رہتے ہیں۔۔۔ بھری مجلس میں مولوی پر جگت بازی۔۔۔ ہتک عزت۔۔۔ استہزاء۔۔۔ اور جو دوست ذرا ایجوکیٹڈ قسم کے ہیں ان کی چھیڑ چھاڑ کا سٹائل بھی پڑھا لکھا ہوتا ہے۔۔۔۔ کبھی مدارس کے خلاف پوسٹ لگادی۔۔۔ کبھی جانتے بوجھتے ان کے نصاب اور نظام کو انتہاء پسندی کا باعث قرار دے دیا۔۔۔ کبھی ان کے اکابر پر جرح شروع کردی۔۔۔ شاید ہمارے یہ دوست بھی اسی کوشش اور انتطار میں ہیں کہ کسی گھڑی مولوی کی پلک جھپکے اور ہم زمانے پر اس فلسفے کے حقیقت عیاں کردیں کہ مولوی میں قوتِ برداشت نہیں۔۔۔ یہ تند خو ہے۔۔۔ یہ ریجڈ ہے۔۔۔ متعصب ہے۔۔۔ اس کو بات کرنے کا سلیقہ نہیں۔۔۔ یہ اکھڑ مزاج ہے۔۔۔
مانتا ہوں کہ مولوی بھی اسی معاشرے کا ایک فرد ہے جہاں کریانے کی دکان پر بیٹھنے والے سے لیکر سینٹ کی نشست پر بیٹھنے والے تک سبھی اس تحمل اور برداشت کے بحران میں مبتلا ہیں۔۔۔ اس لئے ایسا بھی ہوتا ہے کہ مولوی چار سن لے چار سنا دے۔۔۔ لیکن اکثر یہ بے چارہ اس ڈر سے آنکھیں کھولے رکھتا ہے میں پلک جھپکوں گا تو شور مچ جائے گا کہ دیکھ لیا نہ،،،، مولوی سے یہی توقع تھی۔۔۔۔
یار خدا کے لئے مولوی کو اس حد نفسیاتی ٹارچر نہ کرو۔۔۔ یہ بے چارہ آپ کی اٹکھیلیوں پر اگر چپ ہو تو آنکھ میں انگلیاں دے دے کر اس کی برداشت کا امتحان مت لو۔۔۔ وہ چاچے غالب نے کہا تھا نا کہ۔۔۔۔۔
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی