ايک دفعہ کسی گاؤں میں ایک بدمعاش شخص اپنے محلے سے گزر رہا تھا کہ اچانک اُس نے دیکھا گاؤں کا نمبردار، پولیس والا اور محلے کا نائی ایک باغ سے باہر نکل رہے ہیں اور انکے ہاتھوں میں کچھ پھل ہیں جو انہوں نے ہو سکتا ہے وہاں سے چُرائے ہیں۔
اب وہ تین تھے اور یہ بدمعاش اکیلا، اُس کا دل تو کر رہا تھا کہ اِن تینوں کو پکڑ کے اپنی "بدمعاشی کے جوہر" دِکھائے، لیکن ساتھ ہی ڈر رہا تھا کہ اگر وہ اکٹھے ہو کر مجھے پڑ گئے تو میں تو کچھ نہیں کر سکوں گا۔۔!!
لیکن اگلے ہی لمحے اُس کے شیطانی ذہن میں ایک ترکیب آئی۔۔!!
جونہی وہ تینوں، اِس بدمعاش کے قریب پہنچے، اِس نے نائی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، "نمبردار صاحب تو ہمارے گاؤں کے بڑے ہیں، اور یہ پولیس ہماری رکھوالی کرتی ہے، اِس لیے اگر یہ کسی باغ سے پھل توڑتے ہیں تو یہ انکا "حق" ہے۔ لیکن تجھے کس نے یہ حق دیا ہے کہ تُو کسی کے باغ سے پھل توڑے۔۔؟" اور ساتھ ہی نائی کی پٹائی شروع کر دی، نائی نے خوب دھائی دی اور اپنے ساتھیوں کو مدد کیلئے پکارا، لیکن وہ تو اِسی بات پر خوش تھے کہ اُس بدمعاش نے انہیں کسی بھی باغ سے پھل توڑنے کا "حق" دے دیا تھا۔ بدمعاش نے نہ صرف نائی کو جی بھر کے مارا بلکہ اُس کے سارے پھل بھی چھین لیے۔
اسکے بعد پولیس والے سے کہا کہ "تجھے تو سرکار اسلئے تنخواہ دیتی ہے کہ تُو لوگوں کے مال و متاع کی خفاظت کریگا، لیکن تُو تو خود دوسروں کے باغ سے پھل اُٹھا رہا ہے، اگر قانون کا ہی یہ حال ہوگا تو کیسے چلے گا۔۔؟ تجھ سے یہ امید نہیں تھی اور اُسکی پٹائی شروع کر دی۔۔!"
اِس دوران نمبر دار نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو بدمعاش نے اُسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا اور پولیس والے سے بھی پھل چھین لیے۔
اِس دوران نمبردار یہ سوچ رہا تھا کہ "یہ بدمعاش مجھے تو کچھ نہیں کہے گا۔۔!" لیکن وہ اُس کی توفع کے برخلاف اُسے بھی مخاطب کرتے ہوئے بولا، "اگر تُو ہمارے گاؤں کا بڑا ہے تو اِسکا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ تُو جو مرضی کرتا پھرے، ایک تو تُو خود پھل توڑ رہا ہے اور ساتھ میں دوسروں کو بھی شامل کر رہا ہے۔۔۔!!" اور اِسکے بعد اُس کا بھی وہی حال کیا جو اُس کے ساتھیوں کا کیا تھا، اور اُس کے بھی پھل چھینے اور چلتا بنا۔
یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ جب نائی کی پٹائی ہو رہی تھی تو اُسکے باقی دونوں ساتھی اسلئے خاموش تھے کہ "ہماری باری نہیں آئیگی"، مگر جب پولیس والے کی پٹائی ہو رہی تھی تو نائی اسلئے خاموش رہا کہ "پولیس والے نے میری مدد نہیں کی تو میں اِسکی کیوں کروں۔۔؟؟" اور جب نمبردار کو مارا جا رہا تھا تو باقی دونوں اسلئے نہیں کچھ کر رہے تھے کہ "اِسے بھی ان جتنا مارا جائے، تاکہ حساب برابر ہو سکے۔۔۔!"