بدعت کو سمجھیے-4: (بدعت کی تعریف، فی الدین، لل - MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community

MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community

link| link| link
MeraForum Community.No 1 Pakistani Forum Community » Islam » Islamic Issues And Topics » بدعت کو سمجھیے-4: (بدعت کی تعریف، فی الدین، لل
Islamic Issues And Topics !!! Post Islamic Issues And Topics Here !!!

Advertisement
Post New Thread  Reply
 
Thread Tools Display Modes
(#1)
Old
deewan deewan is offline
 


Posts: 45
My Photos: ()
Country:
Join Date: Jul 2015
Gender: Male
Default بدعت کو سمجھیے-4: (بدعت کی تعریف، فی الدین، لل - >>   Show Printable Version  Show Printable Version   Email this Page  Email this Page   07-05-2017, 11:56 AM


بدعت کی تعریف
لغت کے اعتبار سے لفظ بدعت، بدع سے نکلا ہے جس کے معنی نئی چیز ایجاد کرنے کے ہیں خواہ وہ عبادت سے متعلق ہو یا عادات (دنیاوی امور) سے۔ لیکن شریعت کی اصطلاح میں بدعت کا معنی ہے دین میں کوئی نیا طریقہ نکالنا ہے جب کہ رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کے زمانے میں اس کا سبب موجود ہونے کے باوجود نہ قولا ثابت ہو نہ فعلا نہ صراحتا اور نہ اشارتا اور اسے دین بنایا جائے اور نیکی و ثواب سمجھ کر کیا جائے۔ یہی وہ بدعت ہے جسکو بدعت ضلالہ، بدعت قبیحہ یا بدعت سئیہ کہا جاتا ہے۔ اس کی پھر دو قسمیں ہیں جو آگے بیان ہوتی ہیں۔
رسول اللہ ﷺ فرما گئے ہیں:
من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد (صحیح البخاری، كتاب الصلح)
ترجمہ: جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ رد ہے
البتہ جو چیز رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہو خواہ رسول اللہ ﷺ نے خود اس کو کیا ہو یا صحابہ کرامؓ نے آپ ﷺ کے روبرو کیا ہو اور آپ ﷺ نے منع نہ کیا ہو وہ سنت ہے اور جو چیز آپ ﷺ کے زمانے میں نہیں ہو اس میں بھی ہر چیز بدعت نہیں بلکہ اس کی تفصیل یوں ہے کہ اگر دنیاوی ضرورتوں سے اس کا تعلق ہو وہ بھی بدعت نہیں بشرطیکہ شریعت کی کسی اور دلیل سے وہ منع ہوجائے۔ جیسے شربت پینا منع نہیں کہ وہ دنیا سے متعلق ہے۔ سگریٹ نوشی بھی دنیاوی چیز ہے لیکن منع ہے اس لیے کہ وہ نقصان دہ چیز ہے اور شریعت نقصان دہ چیزوں کے استعمال سے منع فرماتی ہے۔
لیکن اگر اس چیز کا تعلق عبادت سے ہے تو اگر وہ صحابہؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کے دور میں پیدا ہوئی اور ان حضرات نے اطلاع ہونے پر اس سے منع نہیں فرمایا تو وہ بھی بدعت نہیں۔ اگر ان حضرات نے اس سے منع فرمایا تو پھر وہ عمل بدعت ہوگا۔
فی الدین، للدین
سنت و بدعت کی بحث میں ایک اہم نکتہ فی الدین اور للدین کا فرق ہے۔ فی الدین اور للدین کا فرق اگر پیش نظر نہ رہے تو بدعت کے تعین میں مغالطہ ہوجاتا ہے۔ یہ نکتہ ‏حدیث کے الفاظ فی امرنا(ہمارے دین میں) سے واضح ہوتا ہے۔ حوالے کے لیے حدیث شریف دوبارہ پیش خدمت ہے۔
من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد (صحیح البخاری، كتاب الصلح)
ترجمہ: جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ رد ہے
ایک اور روایت میں آتا ہے:
من احدث فی دیننا ما لیس منہ فھو رد
ترجمہ: جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی تو وہ مردود ہوگی
جاننا چاہیے کہ ہر نئی بات کو بدعت ممنوعہ نہیں کہا جاسکتا بلکہ جو عمل فی الدین (دین کے اندر) یعنی دین قرار دے کر اور عبادت کی طرح اور رضائے الہی کا ذریعہ سمجھ کر کیا جائے حالانکہ شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہ ہو، نہ قرآن و سنت سے نہ قیاس سے نہ اجتہاد سے، جیسے عیدین کی نماز میں اذان اور اقامت کا اضافہ کرنا تو یہ بدعت ہے۔ البتہ وہ کام اس شکل میں شریعت میں موجود نہ ہو لیکن اس کی اصل دین میں موجود ہو اور یہ کام اس سے مستنبط (اخذ) ہو اس صورت میں وہ بدعت شمار نہ ہوگا۔ سیدنا عمرؓ کا تراویح کی نماز جاری کرنا اس کی مثال ہے۔ تراویح رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات مبارک میں باجماعت ادا فرمائی تھی، سیدنا عمرؓ نے فقط رسول اللہ ﷺ کے عمل کا ازسر نو اجرا فرمایا۔ یہاں سے یہ معلوم ہوگیا کہ جو عبادت رسول اللہ ﷺ یا صحابہ کرامؓ سے قولا ثابت ہو یا فعلا یا صراحتا یا اشارتا وہ بھی بدعت نہیں ہوسکتی۔
اسی طرح جو نیا کام للدین(دین کے لیے، نہ کہ دین کے اندر) ہو یعنی دین کے استحکام اور مضبوطی اور دینی مقاصد کی تکمیل اور ان کو حاصل کرنے کے لیے ہو اسے بدعت ممنوعہ نہیں جاسکتا۔ جیسے قرآن شریف جمع کرنے کا مسئلہ، قرآن میں اعراب لگانا، کتب حدیث کی تالیف، اسی طرح احکام فقہ کا مدون کرنا، مدارس کا قیام، خانقاہوں کی تعمیر، تعلیمی اور تبلیغی انجمنوں کا قیام، جدید ہتھیاروں کا حاصل کرنا وغیرہ بدعت نہیں۔ یہ سب احداث فی الدین (دین کے اندر نئی بات) نہیں بلکہ احداث للدین (دین کے لیے نئی بات)ہیں۔ مثلا رسول اللہ ﷺ کے دور میں مدارس کا وجود نہیں تھا۔ لیکن دینی علوم کی حفاظت کے تقاضوں نے علما کی تیاری کا تقاضا پیدا کردیا جس کی وجہ سے مدارس کا نظام قائم کیا گیا۔ لیکن اس طرح کے کام خود اپنی ذات میں عبادت نہیں ہیں۔ یہ کام اس اعتبار سے عبادت ہیں کہ ان سے حفاظت دین میں مدد ملتی ہے۔ اگر آج کوئی اور ذریعہ وجود میں آجائے جس سے دینی علوم کی حفاظت ہوسکے تو پھر مدارس کی ضرورت نہیں رہے گی۔ غرض یہ کہ کہ کسی دینی تقاضے اور مقصد کو پورا کرنے کے لیے بضرورت زمان و مکان کوئی نئی صورت اختیار کرلینا منع نہیں ہے۔ یہ احداث فی الدین نہیں بلکہ احداث للدین ہے اور منع احداث فی الدین ہے نہ کہ احداث للدین۔
اسی طرح عادات اور دنیوی ضروریات کے لیے جو نئے نئے آلات اور طریقے روزمرہ ایجاد ہوتے رہتے ہیں یہ لغوی اعتبار سے بدعت ہیں ان کا شرعی بدعت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ ایسے اعمال بطور عبادت اور ثواب کی نیت سے اختیار نہیں کیے جاتے یہ سب جائز ہیں جب تک وہ کسی شرعی حکم کے مخالف نہ ہوں۔ مثلا کوئی انسان سفر کے لیے گاڑی کے بجائے ہوائی جہاز اس لیے اختیار نہیں کرتا کہ اس میں زیادہ ثواب ملے گا۔
للدین اور فی الدین یہ کا فرق اگر اوجھل ہوجائے تو پھر انسان کو بدعت کو سمجھنے اور ماننے میں مغالطہ ہوجاتا ہے۔
بدعت کی قسمیں
1) بدعت اعتقادی
2) بدعت عملی
بدعت اعتقادی: بدعت اعتقادی یہ ہے کہ کوئی شخص یا جماعت ایسے نظریات رکھے جو رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرامؓ، تابعینؒ و تبع تابعینؒ کے خلاف ہوں۔ عقیدے کی بدعت بعض اوقات کفریہ ہوتی ہے جس کی ایک مثال قادیانیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔ بعض اعتقادی بدعتیں کفر تو نہیں مگر گمراہی ضرور ہیں۔
عملی بدعت: عملی بدعت یہ ہے کہ عقیدے میں تو تبدیلی نہ ہو مگر بعض ایسے اعمال اختیار کیے جائیں جو رسول اللہ ﷺ، خلفائے راشدین اور صحابہؓ سے منقول نہ ہوں۔
اعمال کی بدعت کی اور قسم ہے کہ اعمال کے ڈھانچے تو وہی ہوں جو شریعت سے ثابت ہیں لیکن ان کا رکھ رکھاؤ اور ظاہری اہتمام پہلے سے کچھ بدل جائے جو پچھلوں کے عمل سے ثابت نہ ہو۔ مثلا تہجد کی نماز رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ کے دور میں عام طور پر گھروں میں پڑھی جاتی تھی۔ اب اگر اسے اعلان و اہتمام کے ساتھ باجماعت مسجد میں پڑھا جانے لگے تو یہ ایک نیا عمل سمجھا جائے گا۔ جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن عمرؓ مسجد میں حضرت ام المؤمنین کے حجرے کی طرف بیٹھے تھے۔ ان کو بتایا گیا کہ کچھ لوگ چاشت کی نماز جماعت سے پڑھ رہے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: ’’یہ بدعت ہے۔‘‘
چاشت کی نماز (صلوۃ الضحی) رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے لیکن لوگوں نے جب اسے مسجد میں اہتمام سے باجماعت پڑھنا شروع کیا، جو ایک مسنون عمل کی شکل میں اپنی طرف سے تبدیلی کرنا تھا۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے اس کے اس اہتمام کی وجہ سے اس کے بدعت ہونے کا فتوی دے دیا۔
(جاری ہے)​

 

Reply With Quote Share on facebook
Sponsored Links
Post New Thread  Reply

Bookmarks

Tags
بدعت, فی, لل, کو, کی

Thread Tools
Display Modes

Posting Rules
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts

BB code is On
Smilies are On
[IMG] code is On
HTML code is Off

Similar Threads
Thread Thread Starter Forum Replies Last Post
بدعت کو سمجھیے-1: (تمہید، اعمال کی قسمیں) deewan Islamic Issues And Topics 0 07-03-2017 04:44 PM
تھائی لینڈ:عدالت نے وزیراعظم کوبرطرف کردی karwanpak General Discussion 1 05-08-2014 09:49 AM
کافی کا استعمال دل کی دھڑکنوں کو بے ترتیب ہ ROSE Health & Care 10 05-31-2013 06:40 PM
اِس دل نے تیرے بعد محبت بھی نہیں کی DrEaMBoY Urdu Writing Poetry 3 03-29-2012 07:14 PM
کیسے رات کٹی ،کیسے دن بیتا، میں بھی بھلادو Captain Miscellaneous/Mix Poetry 6 12-10-2010 10:05 AM


All times are GMT +5. The time now is 01:44 PM.
Powered by vBulletin®
Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.

All the logos and copyrights are the property of their respective owners. All stuff found on this site is posted by members / users and displayed here as they are believed to be in the "public domain". If you are the rightful owner of any content posted here, and object to them being displayed, please contact us and it will be removed promptly.

Nav Item BG