انگلینڈ میں ایجوکیشن کے دوران اپنی یونیورسٹی میں ایک عجیب واقعہ دیکھا۔ میری کلاس میں ایک نہایت ذہین و فتین لڑکا تھا۔ اُسے اپنی ذہانت اور اپنی باپ کی وراثت میں ملی دولت پہ ناز تھا۔ پڑھائی میں ہر لحاظ سے پرٖفیکٹ تھا اور پوری یونیورسٹی میں اس کی ذہانت کی وجہ سے اسے کوئی مات نہ دے سکا تھا۔ غرض کہ تمام خوبیاں اس کے اندر جمع تھیں۔ اس کی اسی ذہانت نے اس کے اندر گھمنڈ اور غرور پیدا کر دیا جس کی وجہ سے اس کے اندر سے اپنے اساتذہ کا احترام نکل گیا. یونیورسٹی میں ایک مسلمان استاد تھا جس کو وہ اکثر اپنی تنقید کا نشانہ بنایا کرتا تھا۔ کبھی وہ ان کی داڑھی پر تنقید کرتا تو کبھی انھیں نماز پڑھتے دیکھتا تو انھیں تنقید کا نشانہ بناتا لیکن آفرین ہے ان پر کہ کبھی بھی میں نے ان کو اس کی باتوں کا برے انداز میں جواب دیتے ہوئے نہیں پایا تھا۔ بلکہ وہ اس کی باتوں کو بڑے تحمل کے ساتھ سن لیا کرتے تھے۔ اور مسکرا کر اس کے پاس سے گزر جایا کرتے تھے۔ اور کبھی بھی انھیں کالج کے ڈین سے اس لڑکے کی شکایت کرتے نہ سنا تھا نہ دیکھا تھا۔ میں اس چیز کو پورا ایک سال نوٹ کرتا رہا لیکن ایک سال میں اس لڑکے کے رویے میں ذرا فرق نہ آیا اور نہ فرید صاحب نے اس دوران اپنے ماتھے پر اس کے رویے کی وجہ سے شکن ڈالی۔ ایک دن میں نے اس لڑکے کو سر فرید کے ساتھ بہت بُرے لہجے سے بات کرتے دیکھا تو میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اپنے ہم وطن استاد کی اس طرح سے ہتک برداشت نہ کر سکا تو فوراً جا کر دست و گریبان ہونے لگا تو سر فرید نے مجھے روک دیا اور باوجود اس لڑکے کے اتنے ترش رویہ کے انھوں نے اس لڑکے کی باتوں کو بہت تحمل سے سنا اور آخر میں مسکراتے ہوئے وہاں سے چل دئیے۔ اور مجھے شام کو ملنے کا کہا۔ میرے ذہن میں غم و غصہ تھا، میں اس لڑکے کو اس کی زیادتیوں کا جواب دینا چاہتا تھا لیکن سر فرید نے مجھے اس بات سے روک دیا۔ میں بڑا حیران تھا اور دوسری طرف ان کے صبر و تحمل کو خراجِ تحسین پیش کر رہا تھا کہ ایسا صبر تو میں نے چند ہی لوگوں میں دیکھا تھا۔
خیر! شام ہوئی تو میں سر فرید کے گھر پہنچا، چائے پی تو سر فرید سے وہی سوال کیا جو مجھے پریشان کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا سر آپ کے ساتھ اتنے برے رویے سے وہ لڑکا پیش آتا ہے لیکن آپ نے آج تک اسے جواب کیوں نہ دیا۔ وہ بولے: ”ایک مسلمان ہونے کے ناطے میرے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ میرے حضور فرماتے ہیں کہ انسانی شخصیت کی اتنی واضح تصویر ایک آئینہ بھی پیش نہیں کرتا جتنا کہ اس کا اخلاق۔ پوری یونیورسٹی میں صرف میں ہی ایک مسلمان ٹیچر ہوں، میں یہ نہیں چاہتا کہ میرے کسی عمل کی وجہ سے اسلام کا نام خراب ہو، میں اپنے اخلاق سے اپنے حضور کی سنت کو زندہ رکھنا چاہتا ہوں۔ وہ لڑکا میرے ساتھ برُا رویہ رکھتا ہے لیکن اگر میرا اخلاق اچھا ہے تو اس کے دل میں ضرور ایک دن خیال پیدا ہو گا کہ اس شخص کا دین کیا ہے جس کا اخلاق اتنا اچھا ہے۔ “ میں یونہی سر فرید کی باتوں کو سنے جا رہا تھا اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
اسی دوران سمسٹر کے اختتام پر میں پاکستان چھٹی پر آیا۔ جب واپسی ہوئی تو میرے تعجب کی انتہا نہ رہی۔ یونیورسٹی میں وہی لڑکا سر فرید کے شانہ بشانہ یونیورسٹی میں داخل ہو رہا تھا اور دونوں بہت خوشگوار موڈ میں تھے جیسے سالوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔
اس سوال کا جواب جاننے کے لئے شام کو سر فرید کے گھر پہنچا۔ سر فرید بولے: ”میں نہ کہتا تھا کہ میرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بول بالا ہے۔ ذیشان اس لڑکے نے میرے اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا“۔ سر نے جب یہ جملہ بولا تو خود کو روک نہ پایا اور سر فرید کے سینے سے چمٹ گیا اور کہا: سر! بلا شبہ آپ ٹھیک کہتے تھے۔