میں نے تقریباً 32 سالہ فوجی سروس میں ایسا فوجی آفیسر یا جوان نہیں دیکھا جس نے بغیر اشد مجبوری کے اور وہ بھی گھر بیٹھے بروقت اطلاع نہ کی ہو اور اجازت نہ مانگی ہو۔ چھٹی پر گئے ہوئے افسر یا جوان نے اگر کسی بہانے چھٹی بڑھانے (Extend) کیلئے درخواست بھیج دی یا ٹیلیفون کردیا تو اس کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے، فوج میں اکثر کمانڈر حسب ضرورت فوج کے جوانوں کے ساتھ قریبی رشتہ (Contact) رکھنے، ان کے مورال کا خیال رکھنے، ان کی خوراک اور فیملی پرابلم جاننے کیلئے مہینہ میں ایک عام میٹنگ کے ذریعے ملاقات کرتے ہیں۔
میں کیپٹن تھا اور رجمنٹ میں بحیثیت ایجوٹننٹ (Adjutant) ہیڈکوارٹر، ٹروپس کا کمانڈنگ افسر بھی تھا۔ جوانوں کو ہمیشہ پابندی وقت کے ساتھ چھٹی ختم ہونے کے بعد بغیر کسی بہانے اور حیل و حجت کے واپس آنے کی تلقین ہوتی تھی اور کوئی ٹیلیفون یا مزید چھٹی کیلئے درخواست نہ کرنے کیلئے کہا جاتا تھا اور ان تمام باتوں کا تقریباً 99 فیصد اثر بھی ہوتا تھا۔ ایک دن میں صبح تقریباً آٹھ بجے اپنے دفتر میں بیٹھا کام کررہا تھا کہ میرے صوبیدار صاحب نے آکر بتایا کہ سر سپاہی اللہ دتہ چھٹی پر گیا ہوا تھا اس نے چھٹی ختم ہونے پر آج صبح دفتری اوقات سے پہلے رپورٹ کردی ہے، لیکن اس نے آکر بتایا ہے کہ رات کو اسی کی بیوی فوت ہوگئی ہے۔ کیونکہ ٹروپ کمانڈر صاحب کا حکم تھا کہ ٹیلیفون نہیں کرنا اس لیے وقت پر واپس آگیا ہوں۔
میں نے اس جوان کو بلایا اور اس کے ساتھ افسوس کرنے کے بعد شاباش دی۔ جیب سے نکال کر کرایہ بھی دیا اور مزید دس دن چھٹی دے کر روانہ کردیا۔ یہ مثال دینے کا مقصد صرف اور صرف ایسے لوگوں کو احساس دلانا ہے جو اکثر گھر بیٹھے موڈ نہ ہونے کی وجہ سے یا کسی اور عارضی یا من گھڑت بہانے سے چھٹیاں کرتے ہیں۔ میں یہاں یہ بھی باور کرانا چاہتا ہوں کہ وقت پر کام نہ کرنا اور جس ڈیوٹی کی سرکار سے تنخواہ لے رہے ہیں اگر آپ اس کا صحیح حق ادا نہیں کررہے تو یہ بھی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے اور آپ نے اللہ تعالیٰ کو اس کا جواب دینا ہے۔
(ہاں یہ سچ ہے از بریگیڈئیر (ر) محمد اسلم گھمن)