Urdu Literature !Share About Urdu Literature Here ! |
Advertisement |
|
Thread Tools | Display Modes |
(#11)
|
|
|||
Re: ( اوکھے لوگ ( ممتاز مفتی -
>>
Show Printable Version
Email this Page
06-19-2011, 08:39 AM
ایک روز محترمہ برآمدے سے گزر رہی تھی۔ اشفاق نے سوچا کوئی منفرد بات کروں۔ اس نے ہاتھ پھیلا دیا۔ ایک آنہ دیجئے۔ کس لئے، محترمہ نے پوچھا۔ سیگریٹ پیئوں گا۔ محترمہ نے اکنی ہاتھ پر رکھ دی۔ فتنہ فساد کے ایوان کی بنیاد میں پہلی اینٹ رکھ دی گئی۔ پھر بات بٹھتی گئی۔ اشفاق احمد سارا دن موقع ڈھونڈتا کہ ہاتھ پھیلا کر کہے، ایک آنہ۔ محترمہ منتظر رہنے لگی۔ پھر اہتمام کرنے لگی کہ جیب میں ٹوٹی ہوئی اکنی موجود رہے۔ بات بڑھی تو محترمہ آگے کی بجائے پیچھے ہٹنے لگی۔ اشفاق حیران رہ گیا۔ وہ “اب کیا ہوگا“کی فکر سے آزاد ہو گیا۔ اس لئے آگے بڑھنے لگا اور آگے اور آگے۔ یہ اس کے لئے ایک انوکھا تجربہ تھا جس میں آگے بڑھنے کی لذت تو موجود تھی لیکن فاصلہ کم ہونے کا خدشہ نہ تھا۔ آگے بڑھتے بڑھتے وہ اس مقام پر پہنچ گیا جہاں سے واپسی ممکن نہیں رہتی۔
|
Sponsored Links |
|
(#12)
|
|
|||
Re: ( اوکھے لوگ ( ممتاز مفتی -
>>
Show Printable Version
Email this Page
06-19-2011, 08:39 AM
اشفاق طبعا ایک گیلی لکڑی ہے۔ بھڑک کر جلنے کی صلاحیت سے محروم۔ صرف سلگنا جانتا ہے۔ سال ہا سال سلگتا رہا۔ محترمہ میں انتظار کا حوصلہ تھا۔ حالات نا مساعد تھے۔ خاندان روائیتی تھا۔ باپ جابر تھا۔ اشفاق گونگا تھا۔ آخری قدم اٹھانے کی ہمت نہ تھی۔ ایک بھائی اور دو دوستوں نے زبردستی اٹھا کر ملا کے سامنے بٹھا دیا۔ محترمہ کی والدہ تعلیم یافتہ تھی۔ سمجھدار تھی۔ وسعت دل کی حامل تھی۔ اس نے تعاون کیا۔ شادی ہوگئی۔ گھر والوں نے اسے بھگوڑا قرار دے دیا اور لا تعلق ہو گئے۔ پلے کچھ تھا نہیں کہ گھر کا چولہا جلتا رہتا۔ دونوں میاں بیوی نے کانوں پر قلم ٹانگے اور “سکرپٹ لکھوا لو۔ چلو جی کوئی سکرپٹ لکھوا لو“ کا ہوکا دیتے گھر سے باہر نکل گئے۔ یہ محترمہ بانو قدسیہ تھی۔ اشفاق احمد نے برش اور رنگ کو کیوں تیاگ دیا۔ اس کی جگہ قلم کو کیوں اپنا لیا۔ غالبا اس لئے کہ عمل میں وہ اتنی تفصیلات نہیں دکھا سکتا تھا جو داستان گو کے بورے میں بھری ہوئی تھیں ۔ اصولی طور پر تو اسے مغنی ہونا چاہئے تھا۔ چونکہ وہ ایک عظیم کان کا مالک ہے۔ لیکن اشفاق کو انسانی کردار سے دلچسپی تھی۔ خالی آواز کا زیرو بم اسے جذب نہ کر سکا۔ اس لئے اشفاق احمد افسانہ نویس بن گیا۔
|
(#13)
|
|
|||
Re: ( اوکھے لوگ ( ممتاز مفتی -
>>
Show Printable Version
Email this Page
06-19-2011, 08:39 AM
ادب میں شہرت پانے کے بعد دنیائے ادب میں رکنا اس کے لئے مشکل ہو گیا۔ اس کے اندر کی طوائف کا دم گھٹنے لگا۔ اور وہ شو مین بزنس میں جا شامل ہوا۔ اولین دور میں اشفاق احمد کو کچھ کرنے کا شوق تھا۔ اب اسے کچھ کر دکھانے کا شوق ہے۔ اشفاق احمد ایک پرفیکشنسٹ ہے۔ وہ جو کام بھی کرتا ہے اس کے اندر دھنس جاتا ہے۔ اس قدر دھنس جاتا ہے کہ لت پت ہوئے بغیرباہر نہیں نکلتا۔ مثلا جب وہ ماڈل ٹاءون میں مکان بنا رہا تھا تو کئی ایک ماہ کے لئے معمار بن گیا۔ چنائی اور پلستر کے کاموں کے اندر دھنس گیا۔ جب وہ مکان میں نلکے لگوا رہا تھا تو آٹھ روز برانڈرتھ روڈ کے چکر لگاتا رہا۔ اس نے تمام ٹونٹیاں دیکھیں۔ کس کس کا منہ کھلا ہے کس کس کا بند ہے۔ بیچ میں کتنے کتنے چکر ہیں۔ کس کس کا واشل مضبوط ہے۔ کھولیں تو کتنی دبار نکلتی ہے۔ بند کریں تو چونے کی صلاحیت کس قدر ہے۔ آٹھ دن کی تحقیق کے بعد وہ ٹونٹیوں پر تفصیلی مقالہ لکھ سکتا تھا۔
|
(#14)
|
|
|||
Re: ( اوکھے لوگ ( ممتاز مفتی -
>>
Show Printable Version
Email this Page
06-19-2011, 08:40 AM
۔ کہ پاکستانی کارخانوں کی بنی ٹونٹیوں کے کیا خواص ہیں۔ کیا کیا خوبیاں ہیں۔ کیا کیا خامیاں ہیں۔ یہ تفصیلات اکٹھی کرنے کے بعد اس نے مکان کے نلکوں کے لئے ٹونٹیاں خریدیں۔ کباب بنانے کا شوق ہوا تو لاہور کے مشہور کبابیوں کے کوائف اکٹھے کرتا رہا۔ قیمہ کیسا ہونا چاہئے۔ مصالحہ کیسا ہونا چاہئے۔ آنچ کیسی ہو کتنی ہو۔ اس کے بعد اس نے کباب بنانے کی سیخیں خرید لیں۔ اور میاں بیوی مل کر کباب سازی کی مشق کرتے رہے۔ اب اشفاق کے ہاتھ کے بنے ہوئے کباب منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اکثر دوستوں کو مدعو کرتا ہے۔ خود کباب بنائے جاتا ہے۔ دوست کھائے جاتے ہیں۔ اس شوق تحقیق کو اشفاق کام میں نہیں لا سکتا۔ اس کی تحقیق کا مقصد صرف لذت تحقیق ہے۔ ورنہ آج گلبرگ میں اس کی دوکان ہوتی اور سارے لاہور میں اشفاق کبابئے کی دھوم ہوتی۔
|
(#15)
|
|
|||
Re: ( اوکھے لوگ ( ممتاز مفتی -
>>
Show Printable Version
Email this Page
06-19-2011, 08:40 AM
اشفاق احمد نے آج تک اپنے صرف ایک فن سے مالی فائدہ حاصل کیا ہے۔ اور وہ ہے سکرپٹ رائیٹنگ۔ عرصہ دراز تک اشفاق کے گھر میں حساب کتاب سکرپٹوں میں ہوتا رہا۔ کرایہ مکان چار سکرپٹ۔ باورچی خانے کا خرچ آٹھ سکرپٹ۔ علاج معالجہ ڈیڑھ سکرپٹ۔ لین دین دو سکرپٹ۔ آج بھی بانو سے پوچھو یہ صوفہ کتنے میں خریدا تھا۔ تو وہ کہے گی اچھی طرح یاد نہیں، شائد تین سکرپٹ لگے تھے۔ آج بھی میاں بیوی ہنگامی ضروریات پورا کرنے کے لئے قلم کا پھاءوڑا چلاتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ دونوں کے سکرپٹوں سے مشقت کے پسینے کی بو نہیں آتی۔ ان کے گھر چلے جاو تو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ منشیوں کا گھر ہے۔ الٹا وہ تو میزبانوں کا گھر لگتا ہے۔ یہ آج کی بات نہیں ان دنوں بھی ان کا گھر فارغ البالوں کا گھر لگتا تھا جب چولہا جلائے رکھنے کا مسئلہ پیش پیش تھا۔
|
(#16)
|
|
|||
Re: ( اوکھے لوگ ( ممتاز مفتی -
>>
Show Printable Version
Email this Page
06-19-2011, 08:40 AM
اشفاق کی خوش قسمتی کا ایک اور پہلو ملاحظہ ہو۔ اشفاق احمد نے ایک خاتون کے ساتھ عشق کیا۔ کئی سال وہ اس کے عشق میں گھلتا رہا۔عشق میں کامیاب ہوا۔ خاتون بیوی بن کر گھر آئی تو وہ محبوبہ نہ تھی بلکہ عاشق نکلی۔ ورنہ اشفاق احمد کے جملہ کس بل نکل جاتے۔ محبوب طبیعیت وہ ازلی طور پر تھا۔ بیوی کی آمد کے بعد با لکل ہی دیوتا بن گیا۔ کانٹا اشفاق کو چبھتا ہے تو درد بانو کو ہوتا ہے۔ بتھ چکی اشفاق چلاتا ہے تو آبلے بانو کے ہاتھوں میں پڑتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک خالص پکی دانشور نے پتی بھگتی میں اپنا سب کچھ جذبات،ذہن، روح سب تیاگ رکھا ہے۔ بانو بہت بڑی مفکر ہے۔ وہ ہر بات میں صاحب رائے ہے۔ عقل و خرد سے بھرپور لیکن جب اشفاق طلوع ہو جائے تو سب کچھ سپاٹ ہو جاتا ہے۔ عقل۔خرد۔دانشوری۔
|
(#17)
|
|
|||
Re: ( اوکھے لوگ ( ممتاز مفتی -
>>
Show Printable Version
Email this Page
06-19-2011, 08:41 AM
اشفاق کو شریفانہ قسم کا غحہ نہیں آتا۔ غصہ آتاتو ہے۔لیکن غصے میں وہ بھڑک کر جلنے کی عشرت سے محروم ہے۔ وہ چپڑ چپڑ کرتا ہے۔ سلگتا ہے۔بل کھاتا ہے اور اپنی سلگن کا دوسرے کی ناک میں دھواں دیتا رہتا ہے۔ کئی بار اس کی چڑ چڑ اس قدر شدید ہوجاتی ہے کہ گھر بھٹیاری کی کڑاہی بن کر رہ جاتا ہے۔ چڑ چڑ دانے بھنتے رہتے تھے۔ یہ چڑچڑ بھی اس کے لئے خوش قسمتی بن گئی۔ گمان غالب ہے کہ ایک دن جب بھٹیارن دانے بھون رہی تھی۔ اسے وہ شخصیت یاد آگئی جس نے اسے چڑ چڑ کا تحفہ بخشا تھا۔ وہ گلیور جس نے بچپن میں اسے ٹھگنا بنائے رکھا تھا۔ اس وقت اشفاق احمد اپنے نئے سکرپٹ کے لئے موضع سوچ رہا تھا۔ اس نے بچپن کے گلیور کا قصہ لکھ دیا۔ یوں تلقین شاہ وجود میں آگیا۔
|
(#18)
|
|
|||
Re: ( اوکھے لوگ ( ممتاز مفتی -
>>
Show Printable Version
Email this Page
06-19-2011, 08:41 AM
اشفاق کو شریفانہ قسم کا غحہ نہیں آتا۔ غصہ آتاتو ہے۔لیکن غصے میں وہ بھڑک کر جلنے کی عشرت سے محروم ہے۔ وہ چپڑ چپڑ کرتا ہے۔ سلگتا ہے۔بل کھاتا ہے اور اپنی سلگن کا دوسرے کی ناک میں دھواں دیتا رہتا ہے۔ کئی بار اس کی چڑ چڑ اس قدر شدید ہوجاتی ہے کہ گھر بھٹیاری کی کڑاہی بن کر رہ جاتا ہے۔ چڑ چڑ دانے بھنتے رہتے تھے۔ یہ چڑچڑ بھی اس کے لئے خوش قسمتی بن گئی۔ گمان غالب ہے کہ ایک دن جب بھٹیارن دانے بھون رہی تھی۔ اسے وہ شخصیت یاد آگئی جس نے اسے چڑ چڑ کا تحفہ بخشا تھا۔ وہ گلیور جس نے بچپن میں اسے ٹھگنا بنائے رکھا تھا۔ اس وقت اشفاق احمد اپنے نئے سکرپٹ کے لئے موضع سوچ رہا تھا۔ اس نے بچپن کے گلیور کا قصہ لکھ دیا۔ یوں تلقین شاہ وجود میں آگیا۔ تلقین شاہ ایک جاذب توجہ کردار ہے۔ لوگوں نے تلقین شاہ کو سنا تو بھونچکے رہ گئے۔ ہر کسی کے دل کی گہرائیوں میں چھپے بالشتئے نے سر نکالا۔ اور دوسروں کو تلقین کرنے والے گلیور پر تالیاں بجانے لگا۔ہم سب میں کہیں نا کہیں ایک چھپا ہوا بالشتیہ موجود ہے۔ جس کا وجود کسی نا کسی تلقین شاہ کا مرہون منت ہے۔
|
(#19)
|
|
|||
Re: ( اوکھے لوگ ( ممتاز مفتی -
>>
Show Printable Version
Email this Page
06-19-2011, 09:07 AM
|
(#20)
|
|
|||
Re: ( اوکھے لوگ ( ممتاز مفتی -
>>
Show Printable Version
Email this Page
06-19-2011, 03:18 PM
|
Bookmarks |
Tags |
لوگ, مفتی |
|
|
Similar Threads | ||||
Thread | Thread Starter | Forum | Replies | Last Post |
لیموں کا شر بت گر دے کی پتھر ی سے محفو ظ رکھتا | ROSE | Health & Care | 6 | 06-05-2013 03:04 AM |
حاجت پوری ہونے کی صورت میں بھی خوف لازم ہے | ROSE | Quran | 6 | 07-04-2012 03:09 PM |
حرفِ تازہ نئی خُوشبو میں لکھا چاہتا ہے | ROSE | Great Urdu Poets&Poetry | 6 | 08-25-2011 05:43 PM |
اوکھے لوگ ( ممتاز مفتی ) | life | Urdu Literature | 18 | 08-23-2011 12:02 AM |