ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بادشاہ نے ایک شاہراہ بنوائی اور اِس کے افتتاح کے لئے ایک دوڑ کا اعلان کیا اور کہا کہ "اس دوڑ میں تمام شہری حصہ لیں اور یہ کہ جو سب سے اچھا سفر کرے گا بادشاہ اُسے اِنعام دے گا۔"
سب نے بڑے جوش و خروش سے حصہ لیا۔ شاہراہ کے دوسرے سِرے پر بادشاہ سب دوڑنے والوں کے تاثرات پُوچھتا رہا۔ کسی نے شاہراہ کی تھوڑی کسی نے زیادہ تعریف کی مگر سب نے بتایا کہ شاہراہ پر ایک جگہ بجری پڑی ہے۔ اگر اُسے اُٹھوا دیا جائے تو راہ چلنے اور دوڑنے والوں کے لیے بہت اچھا ہوگا۔
شام تک سب لوگ چلے گئے تو بادشاہ اُٹھ کر جانے لگا۔ ایک سپاہی نے خبر دی کہ "دوڑ میں حصہ لینے والوں میں سے ایک آدمی جو شاہراہ میں صبح سویرے داخل ہوا تھا ابھی آنا باقی ہے۔"
کچھ دیر بعد ایک درمیانی عمر کا شخص دھُول میں لت پت تھکا ہارا ہاتھ میں ایک تھیلی پکڑے پہنچا اور بادشاہ سے مخاطب ہوا "جناب عالی! میں معافی چاہتا ہوں کہ آپ کو انتظار کرنا پڑا۔ راستہ میں کچھ بجری پڑی تھی، میں نے سوچا کہ آئندہ اِس شاہراہ سے گزرنے والوں کو دقّت ہوگی۔ اُسے ہٹانے میں کافی وقت لگ گیا۔ بجری کے نیچے سے یہ تھیلی ملی، اس میں ایک سو سونے کے سِکّے ہیں۔ آپ کے سڑک بنانے والوں میں سے کسی کے ہوں گے۔ اُسے دے دیجئے گا"۔
بادشاہ نے کہا "یہ تھیلی اب تمہاری ہے۔ یہ میں نے ہی رکھوائی تھی۔ یہ تمہارا انعام ہے۔ بہترین مسافر وہ ہوتا ہے جو آئندہ آنے والے مسافروں کی سہولت کا خیال رکھے"۔
افسوس ہم مجموعی طور پر وہ شہری ہیں جو اپنے حکمرانوں کی "بجریوں" پر تو نالاں رہتے ہیں مگر اپنے گھر، آفس، گلی، محلے اور شہر کی اس "بجری" کو ہٹانے کی کوشش نہیں کرتے جس کا ذمہ دار کوئی حکمران نہیں ہوتا۔ ہم عام عوام، میں اور آپ اس "بجری " کے ذمہ دار ہوتے ہیں یا زمہ دار نہ بھی ہوں تو اسے آسانی سے راستے سے ہٹا سکتے ہیں مگر افسوس کہ ہم میں سے ہر ایک گفتار کا غازی بن تو گیا ہم میں کوئی کردار کا غازی بن نہ نہیں۔
الله کرئے اب ہم لوگ بھی صرف باتیں بنانے کے بجائے اردگرد موجود چھوٹی "بجریاں" بھی ہٹانا شروع کر دیں۔ ایسا کرنے پر مجھے یقین ہے کہ ہم اُس بادشاہِ حقیقی کی بارگاہ سے دنیا و آخرت میں انعام ضرور پائیں گے۔ انشاء اللہ